اہل کوفہ

393

پروین شاکر کے اشعار سے آغازکرتے ہیں:
حسین ابن علی کربلا کو جاتے ہیں
مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں میں بیٹھے ہیں
گزرے تھے حسین ابن علی رات ادھر سے
ہم میں سے مگر کوئی بھی نکلا نہیں گھر سے
کربلا ایک سیرت اور طرزعمل کا نام ہے۔ بدقسمت سانحے سے زیادہ حق وباطل کے معرکے کا استعارہ۔ حریت، خوداری، جرات، شجاعت، ایثار، قربانی، صبر اور انقلاب کی شعوری کوشش۔ یہ جان دیتے مظلوموں سے لپٹی روشنیوں کی علامت ہے۔ یہ وہ خوشبو ہے جو مظلوموں کے خون سے پھوٹتی ہے۔ ظالموں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز اس خوشبو، اس احساس، اس علم، اس حکمت سے کل بھی نا آشنا تھے آج بھی لاعلم ہیں۔ کربلا تشنگی کا نام ہے۔ ہونٹوں کی ادھڑتی پپڑیوں کا نشان ہے۔ غیرت وجرات کا اضطراب ہے۔ کربلا سید المرسلینؐ کی شریعت سے دمکتے سینوں کا نام ہے۔ دین میں تبدل و تغیر کرنے والے حکمرانوں کے خلاف شعور کا فروغ ہے۔ غاصبوں کے اقتدار کو قبول نہ کرنے کا عزم ہے۔ حکمرانوں کے خلاف احتساب کا علم ہے۔ مظلوموں کی مدد ہے۔ مسلمانوں کو ظالموں کے ہاتھوں میں نہ دینے کی روایت ہے۔ تشدد اور ظلم کے مقابل نہ دبنے کا ضابطہ ہے۔
کوفہ شہر منافق ہے، شہر منافق کی شہریت ہے۔ کوفہ شہر تذبذب ہے، مدح قاتل ہے۔ کوفہ دربدری اور قید خانوں کا خوف ہے، قتل کا ڈر ہے۔ کوفہ دوست کے بھیس میں کربلا کا دشمن ہے۔ کوفہ جاہ پرستی ہے، رزق کی مصلحت ہے۔
میرا گھر بار ہے، بچے ہیں، مسائل بھی ہیں
دیکھ اب حق کے لیے جنگ نہیں کرسکتا میں
مظلوم کی مکمل سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت لیکن فوجی مدد سے گریز، نعرے مظلوم کے اور ساتھ ظالم کا۔ ظالم کی قبولیت اور مظلوم کو محض تھپکیاں۔ یہ طرز عمل جہاں بھی اور جس سے سرزد ہو وہ کوفی ہے۔ مظلوم کو کمزور بے بس سمجھ کر اس کا ساتھ چھوڑنا اور ظالم کو طاقتور اور حاکم دیکھ کر اس کا ساتھ دینا۔ کربلا کے نام پر تقریریں کرنا، لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنا لیکن ظالم سے ساز بازکرنا، جنگ سے گریزکرنا۔ اس منافقت کی نسبت اہل کوفہ ہیں۔
پانچ اگست سے اہل کشمیر ہلاکت کی مستقل قید میں ہیں۔ مودی گجرات کی طرح ان کے نصیب میں بھی موت اور فلاکت دیکھنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر کسی کو اہل کوفہ کا کردار دیکھنا ہو تو پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو دیکھ لے۔ وہ اہل کشمیر کو سہارا دے رہے ہیں مگر فریب دینے کے لیے۔ وہ تقریروں میں جاگ رہے ہیں مگر مسئلہ کشمیر کو سلانے کے لیے۔ وہ کشمیر کے حق میں بول رہے ہیں اور بے تکان بول رہے ہیں مگر گونگے لفظوں اور روح سے خالی جسم کے ساتھ۔ وہ حاضر ہیں مگر غائب ہیں۔ اہل کشمیر کی فریاد سن رہے ہیں مگر بہرے ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کے پاس جارہے ہیں، اقوام متحدہ میں خطاب کی تیاری کررہے ہیں مگر مسئلہ کشمیر کو گھمانے کے لیے۔ اندھیری گلیوں میں گم کرنے کے لیے۔ وہ کن کے ایجنٹ ہیں، کن کے فیصلوں کو نافذ کررہے ہیں، وہ کہاں سے لائے گئے ہیں، کن کے فائدوں کے لیے کردار ادا کررہے ہیں؟ پاکستان میں کوئی ایسا ہے جسے پتا نہ ہو۔ کوفیوں نے قافلہ حسین کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا۔ ہماری قیادت نے اہل کشمیر کو مرنے کے لیے مودی کے سپرد کردیا ہے۔
چالیس برس سے کشمیر کے مسلمان شہید ہو رہے ہیں، موت اور خوف کے بیچ زندگی گزار رہے ہیں، احتجاج کر رہے ہیں، اپنا خون جلارہے ہیں، گلے خشک کررہے ہیں۔ پاکستان میں اہل کشمیر کے غم میں دل بھڑک رہے ہیں، سینے دہک رہے ہیں، سانسیں پگھل رہی ہیں، آنکھیں چنگار ہو رہی ہیں، گلے چھل رہے ہیں، رگیں تن رہی ہیں۔ ہماری سول اور فوجی قیادت بھی اسی اذیت میں مبتلا ہونے کی اداکاری کررہی ہے۔ وہ مودی کو ہٹلر کہہ رہے ہیں، جلسے جلوسوں اور پریس بریفنگز میں للکار رہے ہیں۔ ان کی زبانیں اہل کشمیر کے ساتھ ہیں لیکن دل مودی کے ساتھ ہیں۔ انڈین اسٹیٹ آف جموں وکشمیر کہنا زبان کی لغزش نہیں دل کی آواز ہے۔ وہ شوز منعقد کررہے ہیں، قوم کو قائل کررہے ہیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں، نغمے گوائے جارہے ہیں، ڈرامے اور فلمیں تخلیق ہورہی ہیں۔ کرکٹ کھلاڑیوں اور ڈراما آرٹسٹوں کے ساتھ تصویریں کھچوائی جارہی ہیں۔ ملک کو تماشا گاہ بنا دیا گیا ہے اور سول اور فوجی قیادت اس تماشے کے اداکار۔
وزیراعظم عمران احمد خان نیازی کہتے ہیں ’’اب عمل کا وقت ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے عمل نہ کرنا کوئی آپشن نہیں ہے‘‘۔ جب ان سے عمل کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں ’’پاکستان اس وقت کچھ نہیں کرسکتا۔ بھارت نے تمام سرحدیں بند کی ہوئی ہیں‘‘۔ اس طرح کے ٹھٹول کی تو اہل کوفہ کو بھی جرات نہ ہوئی ہوگی۔ ایک اور موقع پر وزیراعظم کہتے ہیں ’’معاملہ دو طرفہ بات چیت سے حل نہیں ہوسکتا بات اس سے آگے نکل چکی ہے۔ اس کے حل کا راستہ صرف امریکا ہے‘‘۔ اس سوچ کے مالک وزیراعظم کو سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ امت مسلمہ کا کوڑھ ہیں۔ یہ وہ عفونتیں ہیں جو بستیوں کی فضا کو زہریلا کردیتی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو تو امریکیوں کی چراگاہ بنادیا ہے اب یہ کشمیر کو بھی اس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ جو امریکا چالیس روز سے جاری کرفیو ختم نہیں کراسکا وہ مسئلہ کشمیر حل کرائے گا؟
جنگ نہ کرنے کا بہانہ یہ تراشا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی قوتیں ہیں۔ بات روایتی جنگ تک محدود نہیں رہے گی۔ ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایٹمی جنگ کا سود وزیاں صرف پاکستان کے لیے ہوگا۔ مودی نے آج تک ایٹمی جنگ کے خوف کا اظہار نہیں کیا۔ وہ پوچھ رہا ہے کہاں گئے ایک ہزار برس تک جنگ کرنے والے۔ بھارت آرمی چیف کہہ رہا ہے ’’ہمارا اگلا منصوبہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو آزاد کرانا ہے اور اسے بھارت کا حصہ بنانا ہے‘‘۔ ہمارے آرمی چیف فرماتے ہیں ’’کشمیریوں پر ظلم ہمارے صبر کی آزمائش ہے‘‘۔
مسئلہ کشمیر کا واحد حل جہاد ہے۔ فوجی قوت کے استعمال کے علاوہ کشمیر کا کوئی دوسراحل نہیں ہے۔ اہل کوفہ کے طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران احمد خان نیازی ایک طرف کہتے ہیں ’’ایک بار جنگ چھڑ گئی تو یہ قوم اپنی آخری سانس تک لڑے گی‘‘۔ اس سے پہلے کہ اس جملے سے دلوں میں آگ بھڑک اٹھے عوام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان کا اگلا جملہ ہوتا ہے ’’نہیں جائیں جب تک میں آپ سے نہ کہوں۔ پہلے مجھے اقوام متحدہ جانے دو اور کشمیر کا مقدمہ لڑنے دو‘‘۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک ڈبیٹنگ کلب اور فوٹو سیشن کا مقام ہے جس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ اقوام متحدہ سے امید خالص کوفی طرزعمل ہے۔ افواج پاکستان اور قوم کے جوانوں کو حرکت میں لانے سے عملاً روکنا ہے۔ سیدنا حسین ؓ کا قول ہے ’’ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھوگے اتنی ہی زیادہ تکالیف برداشت کرنا ہوں گی‘‘۔