خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

1148

حبیب الرحمن

اس میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر قومیں حقیقی ترقی و اطمینان کی منزل تک پہنچ سکتیں ہیں لیکن یہ بات کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے کم از کم موجودہ دور کے مسلمانوں کی سمجھ میں آنے کے فی الحال کوئی امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اس کی بہت سادہ سی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ موجودہ دور کا مسلمان مولوی ہو یا مسٹر، وہ اپنے آپ کو سمجھتا تو مسلمان ہے لیکن ہر دو قسم کا مسلمان (مولوی یا مسٹر) مسلمان نہیں ہے البتہ اس کا نام مسلمانوں جیسا ضرور ہے۔ دنیا کے دیگر نام نہاد مسلم ممالک کے مسلمانوں کے بارے میں وہاں کے رہنے والے ہی بہتر جانتے ہوںگے۔ میں باقی مسلمان ممالک کا تذکرہ چھوڑ کر پاکستان کے مسلمانوں تک اپنی گفتگو محدود رکھتے ہوئے ہر عام و خاص کو اس بات سے آگاہ ضرور کرنا چاہوں گا کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمان ممکن ہے وہ یا تو پورے تیتر ہوں یا پورے کے پورے بٹیر لیکن وہ مسلمان جو پاکستان میں رہتے ہیں وہ ہر معاملے میں آدھا تیتر آدھا بٹیر بھی نہیں۔
پاکستان کے سوا جتنے بھی وہ ممالک جن کو اسلامی ممالک میں شمار کیا جاتا ہے ان میں بیش تر بادشاہوں والے سیاسی نظام نافذ نظر آتے ہیں۔ بے شک وہاں کا ہر حکمران شاہ نہ کہلاتا ہو لیکن طرز حکومت اسی انداز کا ہے جو انداز ’’شاہوں‘‘ کا ہوتا ہے، لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی کو آج تک اس بات کا پتا ہی نہیں چل پایا کہ یہاں اصل حکمرانی کس کی ہے۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ سوچا جائے تو پاکستان کی ساری ’’اقوام‘‘ ہر معاملے میں اپنی اپنی سوچ اور مزاج رکھتی ہیں۔ سوچ اور مزاج کا یہ انداز صرف سیاست ہی میں نظر نہیں آتا بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں ’شش و پنج‘ اب ایسی پہچان بن چکا ہے جس سے تا قیامت چھٹکارا پانا ناممکن نظر آتا ہے۔ پاکستان کی فلاح بہبود کا مناسب حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہے یا مذہبی جماعتیں مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔ بے شک زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو وہاں اختلاف رائے کوئی بری چیز نہیں لیکن اس میں اتنی شدت آجانا کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی گوارہ نہ ہو، یہ پہلو کسی بھی قوم کی تباہی و بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اسی قسم کی شدید سوچ ان لوگوں میں ہی کیوں زیادہ ہے جن کی تعلیم کی بنیادی شرط ہی تحمل، برداشت اور صبر ہے۔
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں گزشتہ 72 برسوں میں دنیا کے سارے سیاسی فلسفے آزمائے جاچکے ہیں۔ یہاں بادشاہوں جیسا نظام (آمریت) بھی رائج رہا ہے۔ یہاں بھٹو دور میں ہر شے کو قومیا کر کمیونزم اور سوشل ازم کو بھی رواج دیا گیا ہے۔ یہاں ضیاالحق کے دور میں ’’اسلام‘‘ کو بھی برپا کیا گیا ہے اور جمہوریت کی چٹنی بھی خوب بنائی گئی ہے۔ لطف کی بات یہ کہ جمہوریت کی یہ ’’چٹنی‘‘ ہر قسم کی طرز حکومت یعنی بادشاہت (آمریت)، کمیونزم، سوشل ازم، مارشل لائی ازم اور نام نہاد جمہوریت میں بنائی جاتی رہی ہے۔ ہر قسم کے حکمران اس بات پر مجبور نظر آتے رہے ہیں کہ ہم جو مرضی کرلیں لیکن لوگوں کو کھانے پینے، بولنے چالنے اور ہر قسم کی چیخم دھاڑ کی اجازت دیے بغیر بہر حال لوگوں پر ہمارا حکمرانی کرنا ممکن نہ ہو سکے گا اس لیے وہ ایوبی دور کا ’’بی ڈی‘‘ سسٹم ہو یا مقامی جمہوریتوں کا نظام ہو یا مقامی حکومتی نظام، اس کو نافذ کیے بغیر لوگ ہمیں کرسیوں پر متمکن نہیں ہونے دیں گے۔ چنانچہ ہر بادشاہت نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ’’نقار خانوں‘‘ کی تعمیر کو لازمی سمجھا اور توتیوں کو شور مچانے کی آزادی دینا پڑی۔ پاکستانی قوم کی ایک خصوصیت یہ بھی ابھر کر سامنے آئی کہ ان میں تلون مزاجی بلاکی ہے اور یہ تلون مزاجی پاکستان کے سب سے بڑی آبادی والے صوبے میں بسنے والے لوگوں میں باقی ماندہ صوبوں میں بسنے والوں سے کئی سو گناہ زیادہ ہے۔ اس صوبے کو پنجاب کہا جاتا ہے۔ شاید یہ تلون مزاجی کئی صدیوں پرانی ہے جس کی وجہ سے حکیم الامت، شاعر مشرق، علامہ اقبال اپنی ایک نظم ’’پنجابی مسلمان‘‘ میں فرماتے ہیں کہ
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندہ کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
ان کی یہ نظم میں نے اپنے بچپن میں پڑھی تھی لیکن کہاں علامہ اور کہاں میری نوعمری، ان کا یہ فلسفہ میرے سر سے کئی گز اوپر سے گزرگیا تھا لیکن جوں جوں شعور بالغ ہو کر اتنا گستاخ ہوتا گیا کہ وہ علامہ کے فلسفے کی گہرائیوں کو بھی سمجھنے لگے تو مجھے یوں لگا جیسے علامہ خود کچھ بھی نہیں بولا کرتے تھے بلکہ ہر بات ان پر منکشف ہوا کرتی تھی۔ ایوبی دور میں مسلم لیگ کا کنوینشنل ہو جانا، ضیا دور میں، جونیجو بن جانا، نواز دور میں ن کہلانا، مشرف دور میں ق میں ڈھل جانا، وٹو والی کا ہم خیال کہلانا، شیخ رشید والی کا عوامی کہلانا، مشرف والی کا آل پاکستان ہوجانا، اعجاز الحق والی کا ض میں تبدیل ہونا اور اسی صوبے سے پی پی پی کے اندر سے ’’چار پی‘‘ کے طلوع ہونے اور پھر سب کو بوٹوں تلے روند کر پی ٹی آئی کا روپ دھار لینے کی پے در پے قلابازیوں کے بعد بھی اگر مجھ جیسے کند ذہن کو علامہ اقبال کی یہ مختصر ترین نظم سمجھ میں نہیں آتی تو زمانے میں جاہلوں کا نام زندہ رکھنے والا شاید کوئی بھی نہ رہ پاتا۔
عجیب ترین بات یہ ہے کہ میں نے پوری دنیا میں ایسی کوئی قوم نہیں دیکھی جیسی پاکستانی قوم ہے۔ جمہوریت میں مارشل لا کی دہائیاں دیتی ہے اور مارشل لا میں جمہوریت کو پکارتی ہے، باربار کی اس الٹ پھیر نے اب تو اس قوم کا دماغ بالکل ہی الٹ کر رکھ دیا ہے اور اب یہ بیک وقت دو دو طرز حکمرانی کے گیت گاتی نظر آتی ہیں۔ میں نے عمران خان پر جان و دل تک قربان کردینے والوں کو ہر معاملے میں عسکری اداروں کو کریڈٹ دیتے اور زندہ باد کہتے سنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بھی مثبت کام موجودہ حکومت کا ہے تو پھر کریڈٹ کس کا ہونا چاہیے؟۔ ثابت ہوا کہ اب موجودہ حکومت کے چاہنے والوں کے لیے یہ تجزیہ کرنا ہی مشکل ہونے لگا ہے کہ اصل میں قوم کی ’’مشکل کشائی‘‘ کس کی دسترس میں ہے۔ جب کوئی مریض بالکل ہی لب دم ہو تو اس کا حال اس ڈوبنے والے کا سا ہو جاتا ہے جس کو صرف اور صرف سہارا چاہیے ہوتا ہے خواہ وہ تنکے ہی کا کیوں نہ ہو۔ اس وقت ان کی نگاہ میں نہ مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی مسلک، نہ سیاہ نہ سفید رنگت، نہ ملک ہوتا ہے اور نہ ہی ملت، اسے اگر کوئی غرض ہوتی ہے تو اپنی زندگی سے ہوتی ہے۔ یہی حال جاں بلب مریض کا ہوتا ہے۔ دوا، دارو، تعویز، گنڈے، ٹوٹکا، مزارات اور پیر فقیر، غرض کوئی ایک سہارا بھی ایسا نہیں ہوتا جس کی وہ مدد طلب نہ کررہا ہو۔ وہی حال اس وقت پاکستان کی قوم کا ہو کر رہ گیا ہے۔ دنیا کا کوئی ایک ’’تنکا‘‘ بھی ایسا نہیں جس کو پکڑ پکڑ کر وہ سہارا بنانے کی کوشش میں مصروف نظر نہیں آتی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جسے سہارا بنانا ہے اور جو ہر شے پر قادر ہے اسے سہارا بنانے کے لیے قوم کہیں سے کہیں تک تیار نہیں۔
جس مالک کے سامنے آج سے 72 برس پہلے قسمیں کھائی تھیں کہ وہ (اللہ) اپنی قدرت سے اْسے پنجہ خونیں سے نجات دے کر اگر ایک خطہ زمین عنایت کرے گا تو اس خطے میں وہ اس کا (اللہ کا) نظام نافذ کریں گے لیکن اللہ کی تائید اور نصرت حاصل ہونے کے بعد ساری قسمیں اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور پوری پاکستانی قوم بنی اسرائیل بن گئی۔ یہ ذلت، یہ در در کی ٹھوکریں، یہ گدا گری، یہ تذلیل اور درماندگی اسی کا نتیجہ ہے اور جب تک اللہ کی جانب نہیں پلٹا جائے گا اس وقت تک ذلت و خواری مقدر بنی رہے گی۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی