غریب کے لیے ٹیکس‘ امیر کو مراعات

294

اختر بھوپالی

عمران خان پاکستانی عوام کی آخری اُمید اور سہارا ہیں۔ عوام الناس نے ان سے بہت توقعات لگا رکھی ہیں۔ جب کہ پیشہ ور سیاست دان بیورو کریٹ اور ان کے بعض رفقائے کار ان کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ خصوصاً دیگر سیاسی جماعتوں سے نکل کر آنے والے کیا نظریہ یا مشن لے کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ عمران خان کو اس پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ اگر خدانخواستہ عمران خان کو شکست ہوئی تو یہ ایک بڑا المیہ ہوگا اور عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد اُٹھ جائے گا، وہ ملک کو چور اور ڈاکوئوں کے حوالے کرنے کے بجائے اقتدار آہنی ہاتھوں میں دینا پسند کریں گے۔ سیاست دانوں کو گلہ ہے کہ جمہوریت پر شب خون مارا جاتا ہے مگر جب خود جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کررہے ہوتے ہیں تو انہیں عوام کی یاد نہیں آتی کہ ان کے نظریہ کے مطابق جمہوریت بہترین انتقام ہے جو وہ عوام سے لے رہے ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام ملکی مفاد اور چور ڈاکوئوں سے نجات کی خاطر عمران خان کی ٹیکس پالیسی کو برداشت کرنے کو تیار ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ وہ جو بھی رقم ٹیکس کی مدد میں دیں وہ ماضی کی طرح کرپشن کی نظر نہ ہو بلکہ ملک کو قرضے سے نکالنے میں مددگار ہو۔ عمران خان کو اپنے نمائندوں پر بھی گرفت رکھنی ہوگی۔ عوام چاہتے ہیں کہ بڑے مگرمچھوں کو قید کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ جیل جاتے ہی یہ بیمار پڑجاتے ہیں، پھر اسپتال جا کر اپنا کاروبار جاری رکھتے ہیں، جب کہ چھوٹی مچھلیاں (شرجیل میمن وغیرہ) زیتون کا تیل اور شہد بیچ کر گزارہ کرتے ہیں۔ عوام الناس ہر قسم کا ٹیکس دینے کو تیار ہیں۔ بشرط کہ وہ ملکی مفاد میں خرچ ہو نہ کہ ارکان اسمبلی کی عیاشیوں پر۔ جس کے لیے عمران خان کو ارکان اسمبلی پر بھی گہری نظر رکھنا ہوگی کہ یہ ارکان ذاتی مفاد کے لیے یک جان یک قالب ہوجاتے ہیں۔ پہلے ایک دوسرے کے خلاف جذباتی تقاریر کرکے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں پھر ذاتی مفاد کے لیے بغلگیر ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں پیش آیا جہاں تحریک انصاف، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ارکان نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں بیش بہا اضافے کا بل مشترکہ پیش کیا جو کہ اتفاق رائے سے سیکنڈوں میں منظور بھی ہوگیا۔ اس منظور شدہ قرار داد کی رُو سے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں جو اضافہ ہوا ہے وہ سرکاری ملازمین کی طرح 10 فی صد یا 20 فی صد نہیں بلکہ اتنا اضافہ ہے کہ وہ فی صد کی حدود پھلانگ گیا۔ یہاں ہم مختصراً اضافے کا ذکر کررہے ہیں فی صد خود نکالیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی تنخواہ میں 2 لاکھ 91 ہزار کا اضافہ کرکے 3 لاکھ 50 ہزار کردی گئی ہے دیگر مراعات کے علاوہ وزیراعلیٰ کو ایک سجا سجایا گھر (کوٹھی) بھی دیا جائے گا جو کہ ان کی ملکیت ہو تا کہ جب بے چارے کی نوکری ختم ہو تو بے گھر ہو کر سڑکوں پر نہ پڑا ہو۔
ارکان اسمبلی کی تنخواہ میں ایک لاکھ 2 ہزرا روپے کا اضافہ کرکے ایک لاکھ 85 ہزار کردی گئی ہے۔
35 وزرا کی تنخواہ میں ایک لاکھ 40 ہزار کا اضافہ کرکے ایک لاکھ 85 ہزار روپے مقرر کردی گئی ہے۔
اسپیکر کی تنخواہ میں ایک لاکھ 75 ہزار کا اضافہ کرکے 2 لاکھ 26 ہزار اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ میں ایک لاکھ 65 ہزار کا اضافہ کرکے 2 لاکھ 10 ہزار روپے کردی گئی ہے۔
(ٹھیریے ابھی خزانے میں بہت رقم باقی ہے)
ارکان اسمبلی کا ڈیلی الائونس 1000 روپے سے بڑھا کر 4000 روپے کردیا گیا ہے۔
ارکان اسمبلی کے یوٹیلیٹی الائونس 6 ہزار سے بڑھا کر 20,000 روپے کردیا گیا ہے۔
مہمانداری الائونس 10ہزار روپے سے بڑھا کر 20,000 روپے کردیا گیا ہے۔
35 وزرا کے علاوہ 38 پارلیمانی سیکرٹریز ، 40 قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں، 5 معاونِ خصوصی اور 3 مشیران کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیا جارہا ہے۔ اس بیش بہا اضافے پر جب میڈیا نے شور برپا کیا تو وزیراعظم صاحب نے اس پر عملدرآمد روک دیا مگر… پچھلے ماہ اس قرار داد پر اس تیزی سے عمل ہوا کہ جب ارکان اپنی بڑھی ہوئی تنخواہیں وصول کرچکے تو پریس میں ایک چھوٹی سی خبر اس حوالے سے چھپی۔ ابھی ہم اس ابہام سے باہر نہ نکلے تھے کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب نے یہ خبر دی کہ قرضے معاف کرنے کے مخالفین نے خود 300 ارب روپے کے قرضے معاف کردیے۔ ہم نے اس خبر کو کوئی اہمیت نہ دی کہ حکومت کے مخالفین تو ایسی افواہیں اُڑاتے ہی رہتے ہیں مگر اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ معیشت کی بہتری کے لیے صنعتکاروں کے 300 ارب روپے کے قرضے معاف کیے گئے ہیں۔ قرضے معاف کرتے جائیں اور ایک دن ایسا آئے گا جب خزانہ خالی ہوگا اور معیشت بھی بیٹھ چکی ہوگی۔ ہمیں یہاں پر ایک غریبانہ جملہ یاد آتا ہے کہ غریب کا ایک سو روپے کا بجلی کا بل معاف نہیں ہوتا اور امیر کے اربوں روپے معاف کردیے جاتے ہیں۔ یہاں ہمارے پاس بھی ایک فارمولا ہے کہ اگر غریبوں کے صرف یوٹیلیٹی بلز اس شرط پر معاف کردیے جائیں کہ آئندہ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے بل ادا کریں گے تو پھر دیکھیے گا ماہوار آمدنی میں کتنا اضافہ ہوگا جس سے معیشت مستحکم بھی ہوگی مگر یہ ناممکن ہے؟ گرچہ ہمارے معصوم وزیراعظم نے اس خبر پر بھی ایکشن لیا ہے مگر پھر اس کا حشر بھی بڑی خاموشی سے پنجاب اسمبلی کی قرار داد والا نہ ہو کہ وزیراعظم کو خبر بھی نہ ہو اور چڑیا چُگ جائے کھیت۔
ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ عمران خان پاکستانی عوام کی آخری اُمید ہیں اور عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں مگر ان کو اپنے اردگرد نئے آنے والوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ انہیں سوچنا ہوگا کہ جب پنجاب اسمبلی کی قرار داد پر عمل درآمد رکوادیا تھا تو کون ہے جس میں اتنی طاقت ہے؟۔ وہ کون سے عناصر ہیں جن کے کہنے پر 300 ارب کے قرضے تحریک انصاف کی حکومت نے معاف کردیے۔ ہم پھر کہہ رہے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے آئے لوگوں پر نظر رکھیں کہ وہ کہیں اپنی دیرینہ جماعت کے مشن پر تو کار بند نہیں جن کا مقصد ہی تیسری سیاسی قوت کو اُبھرتے ہی ختم کردیا جائے۔ ذرا سوچیے۔