آئین کی خلاف ورزی!

330

لاہور ہائی کورٹ کے عزت مآب جسٹس جواد حسن کی اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مقدمے کی بنیاد ثبوت پر ہوتی ہے، ثبوت نہ ہو تو مقدمہ بے جان ہوتا ہے، بے معنی اور بے مقصد ہوتا ایسے مقدمات کو پہلی پیشی پر ہی خارج کردینا چاہیے، دنیا کی کوئی بھی عدالت ایسے مقدمات کی سماعت نہیں کرتی۔ ہم ایک مدت سے انہی کالموں میں عدلیہ کے چودھریوں سے یہ گزارش کررہے ہیں کہ مقدمے کی سماعت سے قبل تحقیق کی جائے کہ مقدمہ سچائی پر مبنی ہے یا بدنیتی کا مظہر ہے۔ دور کیوں جائیں، بھارت کی عدالت عظمیٰ نے حکم جاری کیا ہے کہ مقدمہ دائر کرنا ہر شہری کا حق ہے مگر کسی شہری کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی ذاتی دشمنی سے لطف اندوز ہونے کے لیے جھوٹا مقدمہ دائر کرے۔ بھارتی عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے مطابق کوئی بھی جج مقدمہ کی تحقیقات کیے بغیر سمن جاری نہیں کرسکتا کیوں کہ اس کا یہ عمل آئین کی شق 204 کی خلاف ورزی ہے اور ہمارا یہ حال ہے کہ جس کی جیب میں وکیل کی فیس دینے کے لیے پیسے ہیں وہ کسی بھی شہری پر مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ مقدمہ دائر کرنے کے بعد لاپتا ہوجائے تو جج صاحب تب بھی مدعا علیہ سے پیشی پیشی کھیلتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ساری دنیا کا قانون یہ کہتا ہے کہ مدعی الزامات کے ثبوت پیش نہیں کرتا تو مقدمہ خارج کردیا جائے، کیوں کہ اس کی سماعت قانون کی توہین ہے، آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز کے نظام عدل نظام سقہ کے سپرد کیوں کردیا گیا ہے، وہ عالمی قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں کرتے؟ سائلین سے پیشی پیشی کا مکروہ اور اذیت ناک کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جج صاحبان بار کونسل کا بار برداشت نہیں کرسکتے۔ دس سال بعد مقدمہ خارج کرنے والے جج سے ہم نے پوچھا کہ جب کوئی ثبوت ہی نہ تھا تو آپ نے مدعا علیہ کو ذہنی اور مالی نقصان سے کیوں دوچار کیا؟ جج صاحب نے کہا کہ فائل دیکھتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ مقدمہ بوگس ہے جھوٹا ہے، بے مقصد ہے۔ جواباً ہم نے کہا تھا سر! جھوٹا ہوسکتا ہے مگر بے مقصد اور بے معنی نہیں ہوتا، کیوں کہ مدعی کا مقصد مقدمہ جیتنا نہیں ہوتا اس کا اصل مقصد مدعا علیہ کو ذہنی اذیت دینا اور مالی نقصان پہنچانا ہوتا ہے اور عدلیہ اس معاملے میں اس سے بھرپور تعاون کرتی ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ ایسے بوگس مقدمے کی اپیل بھی سنی جاتی ہے۔ جعل ساز سول کورٹ کے بعد سیشن کورٹ پھر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردیتا ہے اور اس سے بھی زیاادہ شرمناک بات یہ ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کی گود میں جا کر بیٹھ جاتا ہے اور عدالت عظمیٰ مائی عظمیٰ کی طرح اس کا سر اپنی گود میں رکھ لوریاں سنانے لگتی ہے۔ وطن عزیز کی کم نصیبی یہ بھی ہے کہ یہاں ایسا کوئی نظام موجود نہیں جو اس تماشے کو روک سکے۔ چند برس قبل لاہور میں ایک امریکی قونصل خانے سے منسلک سیکورٹی اہل کار ریمنڈ ڈیوس نے بھرے بازار میں فائرنگ کرکے دو پاکستانی نوجوانوں کو قتل کردیا تھا مگر اسے بڑی عزت اور احترام کے ساتھ امریکا روانہ کردیا گیا کیوں کہ امریکا بہادر نے یہی ہدایت جاری کی تھی۔ گویا ہمارا عدالتی نظام برآمد ہدایات کا محتاج ہے۔