جمہوریت اور بلاول کا شکوہ

495

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول زرداری کی اس بیانیے سے کیا مراد ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس پارٹی کی سربراہی بلاول زرداری خود کررہے ہیں ، اسی میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ۔ وہ ایک موروثی قیادت کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی سربراہی کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ۔ ان کی پارٹی کی حکومت وفاق میں اور صوبے میں بھی کئی مرتبہ قائم رہی ، مگر یہ امر بھی ریکارڈ پر ہے کہ ہر مرتبہ ان کی پارٹی کی حکومت کے نتیجے میں ملک کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ۔ سندھ میں ان کی پارٹی کا مسلسل تیسرا دور ہے۔ اصولی طور پر تو پالیسیوں میں تسلسل کی بناء پر سندھ کو ترقیاتی کاموں میں دیگر تمام صوبوں سے آگے ہونا چاہیے تھا مگر یہ بھی بدقسمتی ہی ہے کہ ملک کے سب سے بڑا شہر کراچی جہاں پر خود بلاول زرداری رہائش رکھتے ہیں ، سیوریج اور کچرے جیسے مسائل سے دوچار ہے ۔ پیپلزپارٹی کے بانی بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ کا یہ حال ہے کہ آصف زرداری کی بہن پر لاڑکانہ کے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص 90 ارب روپے کی کرپشن کا مقدمہ چل رہا ہے اور لاڑکانہ بھی پسماندگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال آصف زرداری کے آبائی شہر نوابشاہ اور خورشید شاہ کے آبائی شہر سکھر کی ہے ۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی اپنے پورے دور اقتدار میں اپنے آبائی شہر خیر پور کی حالت بہتر نہیں کرسکے تھے اور موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا آبائی علاقہ دادو بھی ان ہی مسائل سے دوچار ہے جس کا کراچی اور حیدرآباد سامنا کررہے ہیں ۔ امن و امان کی خراب صورتحال ، اسٹریٹ کرائم ، بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ ، ٹوٹی سڑکیں ، جگہ جگہ بہتے گٹر، جابجا کچرے کے ڈھیر ،پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی بناء پر گیسٹرو کی وبا، مکھی اور مچھروں کی بھرمار سے ملیریا ، ڈینگی اور دیگر وبائی بیماریاں اب سندھ کی شناخت بن چکی ہیں ۔کرپشن میں سندھ کی بیوروکریسی دیدہ دلیری کی حد تک ملوث ہے اور اس کو کوئی خوف نہیں ہے ۔ یہ بھی پیپلزپارٹی کے سندھ کی وجہ امتیاز ہے کہ یہاں پر اسکول بااثر افراد کی اوطاق اور مویشی باندھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور اساتذہ کو گھر بیٹھے تنخواہیں ملتی ہیں ۔ پورے صوبے میں کہیں پر بھی طبی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی بلاول زرداری کی پارٹی اس سب کی بہتری کی کوئی خواہش رکھتی ہے ۔ آخر بلاول زرداری جمہوریت کی بات کس طرح سے کرسکتے ہیں جبکہ ان کی پارٹی خود عملی طور پر اس کے خلاف ہے ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ بلاول زرداری سب سے پہلے اپنے کارکن کو منتخب کرنے کا حق دیں اور پیپلز پارٹی میں نچلی سطح سے بالائی سطح تک منتخب کرنے کی روایت ڈالی جائے ۔ اس سے ان کی پارٹی کی لیڈرشپ کی تربیت بھی ہوگی اور جو کام کرے گا ، وہی رہنما کے منصب پر فائز ہوسکے گا ۔ بصورت دیگر سلیکٹ کی روایت برقرار رہے گی اور الیکٹ کی باتیں صرف خواہشوں اور دعووں تک ہی رہیں گی ۔