وزیر محنت سعید غنی سے مزدوروں کی توقعات

421

قموس گل خٹک

ملک کی موجودہ صورتحال میں ٹریڈ یونین کی قوت میں اضافہ ہونا مشکل ترین مسئلہ ہے ۔ البتہ جن مزدور رہنماوں نے اپنی زندگی میں ٹریڈ یونین کے ذریعے مزدوروں کو فوائد پہنچاکر نام کمایا ہے وہ اپنے تجربے اور کردار کی وجہ سے اپنی پرانی یونینوں کو بچاکر اب تک خدمات انجام دے رہے ہیں ۔یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے کیونکہ ملک کے بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے لیبر ونگ بناکر ملکی سطح پر ٹریڈ یونین کو تقسیم کیا ہے۔ ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے صنعتی اداروں میں نئی ٹریڈ یونین بنانا آسان کام نہیں رہا۔ وہ ادارے جہاں ٹریڈ یونین اور ایمپلائر کے مابین طویل مدت تک خوشگوار تعلقات میں معاہدات ہوتے رہے اور کبھی مطالبات پر ہڑتال کرنے کی نوبت بھی نہیں آتی تھی ۔ان اداروں کی انتظامیہ نے بھی دیکھا دیکھی یونین کو آنکھیں دکھانا شروع کی ہیں ۔ ایک ایسے صنعتی ادارے میں مشاہدہ کرنے کے بعدمعلوم ہوا کہ ریگولر ملازمین کے مقابلہ میں کنٹریکٹ ورکرز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ 25 سال پرانے ورکرز کے مقابلے میں کنٹریکٹ پر بھرتی نئے ملازم کی تنخواہ زیادہ ہے جس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ریگولر کارکن زیادہ تنخواہ کی لالچ میں کنٹریکٹ سسٹم کو ذہنی طورپر تسلیم کرلیں اور اس مسئلے پر یونین کی جدوجہد اورموقف کی حمایت کو کمزور کیا جاسکے حالاں کہ یونین کے رہنماوں نے ڈسپلن اور پروڈکشن کے معاملے پر فیکٹری انتظامیہ سے ہر ممکن تعاون کیا تاکہ انتظامیہ کے رویے میں تبدیلی لائی جاسکے۔ صرف جہاں فیکٹری انتظامیہ اپنے طورپر یونین کے ساتھ معاملات کو طے کرتے ہیں ان صنعتی اداروں میں ٹریڈ یونین کے ذریعے ورکرز کو کچھ ناکچھ مل جاتاہے لیکن اگر مزدور رہنماوں نے مطالبات کے نوٹس کو ہڑتال نوٹس میں یہ سوچ کر تبدیل کیا کہ محکمہ لیبر کی مداخلت سے مزدوروں کو وہ فوائد دلوادیں گے وہاں آپ نے خود کارخانے دار یا اس کے نمائندے کولیبر ایڈوائزر سے متعارف کرایا اور مصالحتی آفیسر کے روپ میں یہ قانونی مشیر ایمپلائر کو ایسے ایسے گُر سکھائے گا کہ وہ یونین کے مطالبات پر کچھ دینے پر بھی آمادہ نہیں ہوگا ۔ بلکہ وہ اس صنعتی تنازعے کو حل کرنے کے بجائے انڈسٹریل ڈسپیوٹ بنا کرلیبر کورٹ میں ریفر
کرنے کی تجویز پیش کرے گا کیونکہ مصالحتی آفیسر ایمپلائر کو سمجھائے گا کہ ملک کی تاریخ میں انڈسٹریل ڈسپیوٹ پر ہونے والے فیصلے سے کبھی بھی مزدوروں کو سہولیات نہیں ملی۔جہاں تک نئی ٹریڈ یونین کے رجسٹریشن کا معاملہ ہے ملک کے 80فیصد صنعتی اداروں میں مالکان نے محکمہ لیبر کی حمایت سے ایک سے زائد یونین رجسٹرڈ کرواکر CBA سرٹیفکیٹ بھی اپنے الماریوں میں رکھے ہیں مگر اس پورے عمل سے ایسے فیکٹریوں کے کارکن لاعلم رہتے ہیں اگر آپ مزدوروں کی نمائندہ ٹریڈ یونین CBA کے تعین کے لیے ریفرنڈم کرانا چاہتے ہوں اور متعلقہ فیکٹری کا مالک اس کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہو تو آپ پانچ سال میں بھی یہ نہیں کرواسکتے ۔ لیکن جہاں فیکٹری مالک کی خود ساختہ یونین ہوں اور وہ باہر کے صحیح ٹریڈ یونین کاراستہ روکنے کے لیے ہی ریفرنڈم کرانا چاہتا ہو تو ساری کارروائی کاغذوں میں دکھا کر کمپنی کے دفتر میں رات کو مکمل کردی جاتی ہے۔ اگر کسی فیکٹری کے مزدور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بنانا چاہتے ہوں تو جیسے ہی وہ رجسٹرار ٹریڈ یونین کے دفترمیں کاغذات داخل کرتے ہیں چند لمحوں کے بعد اس دفتر سے متعلقہ فیکٹری کے جنرل منیجر کو فون آجاتا ہے۔ ’’ہیلو سر میں رجسٹرار ٹریڈ یونین کے آفس سے بول رہاہوں آپ کی فیکٹری میں یونین بنانے کے لیے ابھی کاغذات داخل ہوئے ہیں آپ کیا کہتے ہیں ؟‘‘ دوسری جانب سے جواب آئے گا کہ میں اپنے ایک آفیسر کو بھیج رہاہوں آپ ان کو پورا سمجھا دیں کہ ہم فیکٹری کی جانب سے کیا کارروائی کریں کہ یونین رجسٹرڈ نہ ہو۔ جیسے ہی فیکٹری کا نمائندہ رجسٹرار ٹریڈ یونین کے دفتر میں پہنچتا ہے سب سے پہلے اس کو مجوزہ یونین کے ان عہدیدارون کی فہرست فراہم کی جاتی ہے جو یونین بنوانا چاہتے ہیں ۔پھر ان کو ایڈوائز کیا جاتا ہے کہ مجوزہ ٹریڈ یونین کے عہدیداروں کو دس روز پہلے ملازمتوں سے برطرف کرنے کے آرڈر نکالیں اورپھر مجوزہ یونین پر یہ قانونی اعتراض لگائیں کہ یونین بنانے والے ہمارے ملازم نہیں بلکہ آئوٹ سائیڈر ہیں جو قانونی طورپر یونین بنوانے کا استحقاق نہیں رکھتے جب ان مزدوروں کو اس اعتراض کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو وہ حیران ہوکر کہتے ہیں کہ جس روز ہم نے کا غذات داخل کیے تھے اس روز تک تو ہم فیکٹری کے ملازم تھے یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ تو رجسٹرا ر کا نمائندہ ان سے کہتا ہے کہ ہمارے سامنے تو آپ ملازمت سے برطرفی کے آرڈر پڑے ہیں۔ اس لیے ہم قانونی طورپر آپ کی یونین رجسٹرڈ نہیں کرسکتے ۔ آپ ملازمت سے برطرفی کو کسی وکیل کے ذریعے لیبر کورٹ میں چیلنج کریں اور ملازمت پر بحالی کے بعد ہی پھر یونین رجسٹریشن کے لیے ہمارے آفس آجائیں اگر کسی فیکٹری کے اندر صحیح ٹریڈ یونین بنانی ہوتو اس بے روز گاری کے دور میں پہلے اپنے روز گار کو دائو پر لگاؤ ۔ ورنہ بارہ گھنٹے کام کرو کوئی سننے اور پوچھنے والا نہیں ہے ۔ ٹریڈ یونین سازی کا حق ملک کے آئین اور انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2013 کے اندر موجود ہے لیکن عملاً آپ یونین نہیں بناسکتے یہ زمینی حقائق ہیں ۔اٹھارویں آئینی ترمیم سے پہلے آمرانہ دور حکومت میں مزدوروں کو تین ماہ کے اندر ڈیتھ گرانٹ مل جاتی تھی موجود ہ وزیر محنت خود ورکرز ویلفیئر فنڈ کے گورننگ باڈی کے ممبر رہے ہیں اور انہوںنے سندھ کے صنعتی مزدوروں کو ڈیتھ گرانٹ ، جہیز گرانٹ ، سکالر شپ دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن 2010میں ملازمتوں کے دوران وفات پانے والوں کے قانونی وارثوں کو ڈیتھ گرانٹ نہیں ملی اور نہ اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ جہیز گرانٹ اسکالر شپ کو مزدور بھول گئے ہیں بلکہ مکانات کے الاٹمنٹ پر بھی ایک مزدور لیڈر کے معرفت رشوت لی جارہی ہے اور رشوت لینے کے بعد بھی مکانات کی چابی نہیں دی جاتی البتہ سکھر ریجن
میں جعلی مزدوروں کو جہیز گرانٹ کی تقسیم کا اسیکنڈل چل رہا ہے جس کی انکوائری رپورٹ ایڈیشنل سیکرٹری لیبر سندھ کے علم میں آچکی ہے۔ اس خراب ترین صورتحال میں محترم سعید غنی کودوبارہ وزیر محنت کا قلمدان مل چکا ہے اور ان کی آمد سے مزدوروں کے توقعات بڑھ گئے ہیں ۔کیا سعید غنی کے دوبارہ وزارت محنت کا چارج لینے کے بعد سہ فریقی ویلفیئر ادارے فعال ہوجائیں گے؟ کیا گھر کے کمانے والوں کے وفات کے بعد ان کی بیواؤں کو اپنی زندگی میں ڈیتھ گرانٹ مل جائے گی؟ کیاسعید غنی سے مزدور رہنماؤں کی توقعات پورے ہوجائیں گے ؟