انتظار

218

افسانہ
صائمہ عبدالواحد ،کراچی

یہ سرینگر کی کربناک شام تھی ہر طرف اداسی چھائی ہوئی تھی۔محلے میں موجود ہندو اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔شیریں کی طبعیت کب سے تلخ ہو چکی تھی اب تو اسکا احساس بھی جاتا رہا۔یہ سب دیکھتے ہوئے اسے 90کی دہائی یاد آنے لگی جب انڈین فوجیوں نے اسکے محلے میں دھاوا بول دیا تھا۔ تب ان درجنوں کشمیریوں کے ساتھ اسکے سر کا تاج بھی تھاجنہیں زدوکوب کرکے گاڑیوں میں ڈالا گیا تھا اس دن کے بعد سے اسکا شوہر لاپتا تھا۔ زندگی کی گاڑی کا پہیہ گھومتا رہا اور ہر گذرتے لمحے نے اسکے کرب میں اضافہ ہی کیا اسے وہ دن بھی یاد تھا جب اسکے محلے میں خوشیاں منائی گئیں جب پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کئے اور کشمیریوں کے دلوں میں امنگ جاگی کہ اب کشمیر ضرور آزاد ہوگا۔
اماں۔۔اماں۔۔۔انعم اور کرن کی آواز نے شیریں کو ماضی کے سمندر سے نکالا” اماں ! مرغیوں کا دانہ بھی ختم ہو گیا اور گھر کا راشن بھی ختم ہے۔“ سب کچھ سننے کے باوجود شیریں پر خوف وہراس کی فضا چھائی رہی ایک عجیب سا خوف جسے اسکے جسم کا رواں رواں محسوس کررہا تھا شام ڈھل چکی تھی مگر وہ اب بھی سوچوں میں گم تھی۔اب اسےاپنے بیٹے یاد آنے لگے کیسے ان فوجی وردی والوں نے یکے بعد دیگرے ایک ہی ماہ میں اسکے دونوں جواں سال بیٹے گھر سے اٹھا لئے تھے جو کبھی لوٹ کر نہ آئے۔ پہلے اباجی کے ہونے سے بڑا آسرا تھا لیکن اب تو وہ بھی برسوں ہوئے چل بسے۔انہی سوچوں میں گم وہ اٹھی اور جائےنماز پر کھڑی ہوگئی اور گریہ وزاری میں مشغول رہی اور نجانے کب صبح ہوگئی۔
انعم اور کرن نے ناشتے پر شیریں کو بلایا اور آپس میں سرگوشی کرنے لگیں” آج اماں ساری رات نہیں سوئی نجانے کیا بات ہے“۔شیریں کو ایک انجانہ ساخوف کل سے کھائے جارہا تھا۔صبح صبح فوجی گاڑیوں کا شور ہر طرف سنائی دینے لگا۔ مائیک سے آوازیں آنے لگیں کہ کرفیو لگ چکا ہے اسلئےکوئی گھر سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے۔فوجی گاڑیاں سائرن اور انکا شور۔۔ دونوں خوف و ہراس کے عالم میں اماں کے پہلو میں آبیٹھیں۔ شیریں نے گھر کے دروازوں پر اندر سے تالے لگائے اور مٹی کا تیل اور ماچس لاکر سرہانے رکھ دی۔ پاس بیٹھی انعم کے سر میں ہاتھ پھیر کر بولیں ”آزادی کی جدوجہد میں ماؤں نے اپنے بیٹے قربان کئے تو بیویوں نے اپنے سر کے تاج کھو دیئے۔ مجھےیہ دونوں اعزاز نصیب ہوئے لیکن مجھے تم دونوں کے ساتھ ہونے والی انہونی سے ڈرلگتا ہے ۔۔47 میں ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دےکر پاکستان حاصل کیا۔ لیکن انگریزوں اور ہندووں کی چال بازیوں نے کشمیر کا معاملہ لٹکائے رکھا۔کچھ حصہ پاکستانی افواج اور مجاہدین کی کوششوں سے آزاد ہوا لیکن باقی ماندہ حصہ ابتک بھارت کے قبضے میں ہے اور ہم جیسے لاکھوں لوگ ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔اسوقت ہجرت کرنے والوں نے بڑی قربانیاں دیں۔لاشوں سے بھری ٹرینیں پاکستان پہنچتی رہیں۔ہمارے جوان شہید ہوئے، بچے لاپتا ہوئے اور ہماری عورتوں نے اپنی چادر کی حفاظت کیلئے کنووں اور ندیوں میں چھلانگیں لگائیں اور جو ان وحشی درندوں کے ہتھے چڑھیں وہ کئ کئی مردوں کی درندگی کا شکار ہوتی رہیں ۔“انعم نے گفتگو میں حصہ لیا جیسے وہ ماں کی تمہید کا مدعا سمجھ گئی ہو۔ ”اماں 47 کے بعد اتنے سال گذر گئے کیا ہمارے پاکستانی فوجی بھائیوں کو ہم پر ہونے والے ظلم و ستم کی خبر نہیں پہنچ رہی ؟ کیا دنیا میں رہنے والے مسلمان بھائیوں کو معلوم نہیں کہ بھارتی فوجی ہم پر کیا ظلم وستم ڈھارہےہیں پچھلے ستر سالوں سے ہماری نسلیں کٹ رہی ہیں مررہی ہیں ہم گھٹ گھٹ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ہمارے بھائی،باپ شہید ہوچکے ہیں ہمارے سر پر کسی کا سایہ نہیں ۔آج ہم اپنی عزت کو بچانے کی خاطر مٹی کا تیل اور ماچس لئے بیٹھی ہیں کہ اگر انڈین آرمی درندگی پر اتر آتی ہے تو ہم جیسی بےکس کشمیری عورتوں کے پاس اسکے سوا کوئی حربہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کو جلا ڈالیں کیونکہ وہ ہماری لاش کو بھی نہ بخشیں گے ۔
کیا روز قیامت ہم اپنے مسلمان بھائیوں کا گریبان نہیں پکڑیں گی اے رب جس حجاب و چادر میں تو نے ہمیں رہنے کا حکم دیا تھا اس چادر اس عزت کو بچانے کیلئے ہمارے مسلمان بھائیوں میں سے کوئی آگے نہ بڑھا انکی بیٹیاں گھروں میں محفوظ تھیں اسلئے انھیں ہماری عزتوں کا احساس نہ رہا کہ مجھ جیسی لاکھوں عورتیں ان بھوکے درندوں کی ہوس کا نشانہ بن رہی تھیں،کتنی ہی کشمیری بیٹیوں کی عزتیں نوچی جا رہی تھیں یا خودکشی کرنے پر مجبور تھیں۔“ کرن نے کہا ”ہاں اماں ہم ضرور اپنے پاکستانی فوجی بھائیوں کا گریبان پکڑ یں گی کہ انھوں نے اپنی شہ رگ کو درندوں کے ہاتھوں میں دے دیا کم از کم پڑوسی ہونے کا فرض نبھا لیا ہوتا۔“
کرفیو لگے آج تیسواں روز تھا گھر میں تین بھوک سے نڈھال زندہ لاشیں موجود تھیں۔ دروازے کو زور زور سے پیٹا جا رہا تھا انڈین فوجی درندوں کے بوٹ دروازے پر برس رہے تھے
کیا اپنی کشمیری بہنوں کی عزت و ناموس کی خاطر پاکستانی فوج محمد بن قاسم کی صورت وہاں پہنچ جائینگے۔۔۔۔۔کیا پاکستان کا دفاع کشمیر کے دفاع کے بغیر ادھورا نہیں۔۔۔
ہاں ایسا ممکن ہے۔۔۔ ہاں ایسا ضرور ہوگا۔۔۔کیونکہ جذبہ جہاد سرد ضرور پڑا ہے مگر ابھی مرا نہیں ۔۔۔لاکھوں کشمیری اور مسلمان بہنیں اس کی منتظر ہیں اور اپنے رب کے حضور دعاگو ہیں۔۔۔۔