آئین کے آرٹیکل ۱۴۹کا نفاذ اور اہل کراچی کی بے بسی

469

محمد اکرم خالد
گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کے مسائل کے حل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ کراچی کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کی جانب گامزن ہوسکیں۔ جس پر کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر قانون فروخ نسیم نے صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فرمایا کہ سندھ حکومت کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اب کراچی کو وفاق آئین کے آرٹیکل 149/4کے تحت کنٹرول کرے، وقت آگیا ہے کہ اس آرٹیکل کے ذریعے کراچی سمیت سندھ بھر کا انتظام وفاقی حکومت چلائے تاکہ کراچی کے مسائل حل ہوسکیں وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ حالات کی بہتری کے لیے سخت فیصلے کرنے ہوںگے۔ یہ آرٹیکل گورنر راج یا ایمرجنسی کی بات نہیں کرتا بلکہ وفاق کو خصوصی اجازت دیتا ہے کہ وہ صوبے کے انتظامی معاملات کو چلائے۔
وزیر قانون کی اس تجویز نے سندھ حکومت میں ہلچل پیدا کر دی ہے تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں سمیت سندھ کی چھوٹی بڑی جماعتیں وزیر قانون کی اس تجویز سے متفق نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس تجویز کو صوبے میں سیاسی مداخلت قرار دیا ہے حکومت کے اتحادی جی ڈی اے کے سربراہ صبغت اللہ شاہ راشدی نے کراچی میں آئین کے آرٹیکل ۱۴۹کے نفاذ پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو الگ کرنا ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے۔ وفاقی وزیر قانون کو سوچ سمجھ کر بات کرنا ہوگی ساتھ ہی میئر کراچی نے بھی اپنی ہی پارٹی کے وزیر قانون کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت ہمیں مشینری مہیا کر دے ہم شہر کی صفائی ستھرائی کے معاملات خود حل کر لیں گے جبکہ تحریک انصاف سندھ کی قیادت وزیر قانون کی تجویز سے مکمل اتفاق رکھتی ہے، اب یہ فیصلہ وزیر اعظم کو کرنا ہے کہ آیا وہ سندھ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سیاسی راستہ اپناتے ہیں یا آئینی راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔
آرٹیکل ۱۴۹ کا استعمال یقینا وزیر اعظم کا آئینی حق ہے مگر اس کے سیاسی نتائج ملک میں مزید سیاسی تصادم کا سبب بن سکتا ہے کیوں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت قائم ہے اور پیپلز پارٹی وفاق میں اس وقت اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے ہے کوئی دو رائے نہیں کہ ۱۱ برسوں میں سندھ حکومت کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے، گیارہ سال میں لاہور سمیت پاکستان کے اکثر حصوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے بہترین منصوبے میٹرو بس اورینج ٹرین کے کامیاب منصوبے ہمارے سامنے ہیں جن سے عوام کو سہولت مہیا ہوئی ہے اسی طرح پنجاب میں ماضی کی حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کے بہت سے منصوبے بنائے ہیں مگر پچھلے گیارہ برسوں میں پاکستان کے معاشی حب کراچی کو ہر طرح سے محروم رکھا گیا ہے۔ کراچی میں جاری ترقیاتی منصوبے صوبائی حکومت کی نااہلی کے سبب تک مکمل نہیں ہوسکے ہیں ان نامکمل منصوبوں کی وجہ سے کراچی شہر میں ہر روز حادثات لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں سر کاری اسپتالوں کا نظام مفلوج ہے اسی طرح سرکاری تعلیمی اداروں کا بھی کوئی والی وارث نہیں ہے اکثر سرکاری ادارے حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے رشوت کا گڑھ بنے
ہوئے ہیں جس سے سندھ حکومت کی بے بسی اور نااہلی کا بخوبی انداز لگایا جاسکتا ہے پولیس صرف وی آئی پی پروٹوکول تک محدود رہ گئی ہے۔ کراچی میں ایک بار پھر جرائم پیشہ گروں سرگرم ہورہے ہیں پولیس کے افسران رشوت وصولی میں مصروف ہیں بڑی بڑی قیمتی گاڑیاں ڈیفنس جیسے علاقوں میں قیمتی فیلٹس پولیس کی محدود تنخواہ میں کسی طور ممکن نہیں مگر پولیس نظام میں رشوت کا جن یہ سب مہیا کر رہا ہے جس پر ارباب اختیار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیوں کہ ان کے اپنے دامن داغ دار ہیں۔ آئین کے آرٹیکل ۱۴۹ کے نفاذ سے کیا یہ تمام تر معاملات درست ہوسکتے ہیں ہمارے خیال سے ایسا ممکن نہیں ہے کیوں کہ موجودہ حکومت کی اپنی ایک سالہ کار کردگی اطمینان بخش نہیں ہے، خیبر پختون خوا میں چھ سال سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے پشاور میٹرو بس منصوبہ آج تک مکمل نہیں ہوسکا، اس منصوبے میں بہت بڑی کرپشن کی گئی ہے اس منصو بے میں پاکستان کے قومی خزانے کو بے پناہ نقصان کا سامنا ہے مگر اس منصوبے میں کرپشن کی تحقیقات نہیں کرائی جارہی پولیس کے نظام میں بہتری لانے کے لیے تحریک انصاف چھ سال سے کوشش کر رہی ہے مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی بارشوں میں بلدیاتی نظام کی نااہلی بھی ہمارے سامنے ہے۔
گزشتہ ایک سال کی اگر بات کی جائے تو ایک سال میں مہنگائی کے سونامی نے غریب کے چولہے ٹھنڈے کر دیے ہیں گیس، بجلی، پڑول کی بڑھتی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ علاج، تعلیم، انصاف کا نظام نہ کل موثر تھا اور نہ آج عوام اس نظام سے مطمئن ہیں۔ حالیہ دنوں میں پنجاب پولیس کی دہشت گردی نے غریب کی زندگیوں کو نگل لیا ہے۔ سانحہ ساہیوال آج بھی انصاف کا منتظر ہے۔ معصوم بچیوں کے ساتھ آج بھی زیادتی کے واقعات جاری ہیں پنجاب کی بارشوں میں گائوں دیہات ڈوبے ہوئے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں تو کیا محترم وفاقی وزیر قانون پنجاب میں بھی آئین کے آرٹیکل ۱۴۹نافذ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
یقینا اس وقت کراچی مسائل کی زد میں ہے کراچی میں ہونے والی بارشوں کو ایک ماہ ہونے کو ہے اور اس وقت بھی کراچی شہر کے بڑے بڑے علاقوں میں بارش کا پانی کھڑا ہے جو مزید حادثات کا سبب بن رہا ہے خواتین، نمازی، اسکول کالج جانے والے طلبہ مشکلات کا شکار ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ اکثر قبرستانوں میں تدفین کا عمل سخت پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے عوام میں غم وغصہ پایا جارہا ہے۔ علاقہ کونسلر یو سی چیئرمین سمیت ہر کوئی ایک دوسرے کو مسائل کا ذمے دار ٹھیرانے میں مصروف ہے، عوامی ووٹوں سے منتخب حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی اپنے فرائض کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈال کر جان چھڑا رہے ہیں پاکستان کے موجودہ صدر محترم عارف علوی کا انتخابی حلقہ جو گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے محترم صدر مملکت کی ذاتی رہائش گاہ ڈیفنس سے چند منٹ کے فاصلہ پر موجود ایک کھیل کا میدان جس میں علاقے میں امن وامان کو قائم رکھنے کے لیے رینجرز بھی قیام پزیر ہیں جہاں ایک سرکاری اسکول بھی ہے اس میدان میں بارش کے پانی کو کھڑے ایک ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے اس برساتی پانی سے جہاں اسکول آنے والے بچے اور اساتذہ کو مشکلات کا سامنا ہے وہاں یہ گندا پانی بچوں میں بیماریوں کا بھی سبب بن رہا ہے جو کنٹونمنٹ کی نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آج کراچی شہر بے یارو مدد گار ہے، اقتدار
میں آنے والی ہر جماعت نے کراچی شہر کا سیاسی استعمال کیا ہے وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے جس صفائی مہم کا آغاز کیا گیا تھا وہ سیاست کی نذر ہوگئی۔ کراچی شہر اس وقت پاکستان کا وہ بد نصیب شہر بنا ہوا ہے جو اس ملک کی تو کفالت کر رہا ہے مگر ارباب اختیار اس پر رحم کا کوئی داعیہ نہیں رکھتے۔
کے الیکٹرک کی غنڈا گردی نے عوام کا جینا عذاب بنادیا ہے لوڈشیڈنگ کے باوجود اضافی بلوں کی بھرمار نے غریب عوام کو عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ملی بھگت نے کے الیکٹرک کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ جس کو نہ صوبائی حکومت اور نہ ہی وفاقی حکومت قابو کر سکی آج بھی غیر معیاری تاروں کا جال بچھا کر انسانی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔
کراچی کا مسائل صرف اس شہر کی صفائی ستھرائی
کا نہیں ہے اس شہر میں جرائم پر قابو پانا، گیس بجلی پانی کے مسائل، تعلیم علاج انصاف کے مسائل، ترقیاتی منصوبوں کے مسائل، ٹرانسپورٹ کے مسائل موجود ہیں جن کو صرف گیارہ سال سے نہیں بلکہ ہر دور میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت ۱۴۹ نافذ کرنے سے بہتر ہوگا کہ وزیر اعظم اس شہر کے ۱۶۲ ارب کے پیکیج کی فوری بحالی پر اپنا کردار ادا کریں تاکہ نامکمل ترقیاتی منصوبے فوری طور پر مکمل ہوسکیں یقینا ۱۲۶ ارب کا چیک اینڈ بلنس رکھا جائے مگر آئین کے کسی بھی آرٹیکل کا استعمال کر کے سیاسی تصادم کو مزید نہ بڑھایا جائے اس وقت ملک پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں ایسے میں ہمیں نفرتوں کو ختم کر کے ملک و قوم کی حفاظت ترقی و خوشحالی پر زور دینے کی ضرورت ہے۔