چائے کی پیالی میں طوفان

250

وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کراچی کو صوبائی حکومت کے انتظام سے نکال کر وفاقی حکومت کے زیر انتظام کرنے کا بیان دے کر چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کردیا ہے ۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے درست نشاندہی کی ہے کہ کراچی کے مسائل کا حل صوبے سے نکال کر وفاق کے ماتحت کرنے میں نہیں ہے بلکہ اس کے وسائل ، اختیارات اور فنڈز کے درست استعمال اور مسائل حل کرنے میں ہے ۔ کراچی کا نام لے کر بھرپور سیاست کی جارہی ہے مگر مسائل کے حل میں کوئی سنجیدہ نہیں ہے ۔ کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے کہ یہاں پر ملک کے ہر کونے سے لوگ آکر آباد ہیں ۔ یہاں کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کے دس فیصد سے بھی زاید ہی ہوگی مگر یہاں پر ترقیات کے لیے فراہم کیے گئے فنڈز اس کی آبادی کے لحاظ سے انتہائی ناکافی ہیں ۔ حافظ نعیم الرحمن نے فروغ نسیم کو آئینہ دکھایا ہے کہ جس ایم کیو ایم کے وہ نمائندہ ہیں ، وہ ایم کیو ایم کراچی میں گزشتہ 30 برس سے برسراقتدار ہے اور اس عرصے میں ایم کیو ایم نے کراچی کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے ۔ یہ دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ اتنے بڑے شہر میں کچرا ہی اٹھانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے اور شہر کچرے کے ڈھیر میں دفن ہوتا جارہا ہے ۔ بارشیں ختم ہوئے کئی ہفتے گزرچکے ہیں ، ابھی تک شہر سے بارشوں کے پانی کی نکاسی ہی نہیں کی جاسکی۔ شہر کا کون سا حصہ ہے جہاں پر سیوریج کا پانی نہیں بہہ رہا اور اس نے اربوں روپے کی سڑکیں تباہ کرکے رکھ دی ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ۔ صوبائی حکومت میں پیپلزپارٹی مسلسل برسراقتدار ہے مگر وہ بھی کراچی کے مسائل کے حل کے بجائے کچھ اس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کررہی ہے جیسا کہ خدانخواستہ کراچی کا سقوط ہوگیا ہے ۔کراچی کیا ، سندھ بھر میں اگر انتظامی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس کا ذکر کیا جائے تو اس پر غیر معمولی ردعمل دینے سے گریز کرنا چاہیے ۔ جب سندھ میں نئے ضلعے بنائے جاتے ہیں تو کوئی آواز بلند نہیں ہوتی لیکن اگر نئے صوبے بنانے کی بات کی جائے تو ایسا شور مچ جاتا ہے جیسے بھارت نے اس پر قبضہ کرلیا ہو ۔ خاکم بدہن اگر بھارت سندھ کے کسی حصے پر قبضہ کرلے تو یہ ساری ہی پارٹیاں اور ان کے لیڈر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہوں گے ۔ کراچی کیا پورے سندھ کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے کسی کو انتظامی اختیارات ہاتھ میں لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ بدعنوان افراد کے درست احتساب اور وسائل کی فراہمی کی ضرورت ہے ۔ بلاول زرداری کو بنگلادیش اور سندھو دیش یاد آجاتے ہیں گو کہ بنگلا دیش بنانے میں ان کے نانا کا بنیادی کردار تھا۔