کرپشن ختم نہیں ہوگی!

550

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں قائم و دائم رہے اور یہاں سے کرپشن، جرائم اور بے قاعدگی ختم ہوجائے گی تو اس کی بڑی خوش فہمی یا غلط فہمی ہوگی۔ صوبہ میں کرپشن کا بول بالا تو 2008 میں آصف زرداری کی قیادت میں برسر اقتدار آنے والی حکومت میں ہوا۔ دس سال تک اس قدر کرپٹ عناصر کو حوصلہ ملا کہ ایک رکن اسمبلی نے تو ٹی وی پروگرام میں واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ’’جتنی صلاحیت ہے کرپشن کرتے رہیں گے‘‘۔
ویسے تو پورا ملک ہی کرپشن کی زد میں ہے۔ جماعت اسلامی کے سوا کوئی اور پارٹی اس الزام سے محفوظ بھی نہیں ہے، مگر پیپلزپارٹی کا اس حوالے سے کوئی مقابلہ نہیں۔ پیپلز پارٹی نے کرپشن کو روکنے اور سندھ میں نیب کو کارروائیوں سے روکنے کے لیے 2013 میں جو مزاحمت کی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ نیب کو روکنے کے لیے سندھ اسمبلی سے بل تک منظور کرایا گیا اور اس مقصد کے لیے صوبائی احتساب بیورو بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔ خوش قسمتی سے ان کوششوں میں ناکامی ہوئی۔ مگر کرپشن کل بھی چل رہی تھی کرپشن آج بھی چل رہی ہے بالکل اسی طرح جیسے ’’بھٹو کل بھی زندہ تھا بھٹو آج بھی زندہ ہے‘‘۔ حالانکہ بھٹو خاندان کے بیش تر لوگ اب زندہ نہیں رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مجرمانہ ذہن کے لوگوں نے بھٹو کے نام کو اپنی کرپشن کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ’’زندہ‘‘ رکھا ہوا ہے۔
بھٹو تو اپنے سیاسی کردار کی وجہ سے مشہور اور مقبول ہوئے تھے لیکن اب ان کے نام اور ان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے اس کا ’’سہرا‘‘ بھٹو کے داماد زرداری کو جاتا ہے۔ جس طرح آج بھٹو کو ان کی وفات کے باوجود زندہ رکھا جارہا ہے۔ ممکن ہے کہ کل آصف زرداری کو بھی ان کے ثابت نہ ہونے والے کرپشن کے قصوں کے حوالے سے یاد رکھا جائے۔ لیکن یہ نہیں معلوم کہ آصف زرداری کو ان کی وفات کے بعد لاڑکانہ کے گڑھی خدا بخش میں ان کے سسر بھٹو اور ان کے خاندان کے پہلو میں دفنایا جائے گا یا نواب شاہ میں ان کے والد حاکم علی زرداری کے پہلو میں۔
الف صاحب، گریڈ 20 کے سندھ گورنمنٹ کے افسر تھے۔ وہ روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ کے ماہر جانے جاتے تھے۔ بے انتہا شریف اور نرم مزاج و نیک افسر کہلاتے تھے۔ وہ گزشتہ سال اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے ریٹائر ہوئے انہیں حکومت نے محکمہ ٹرانسپورٹ و ماس اتھارٹی میں بحیثیت ڈی جی کنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھ لیا۔ وجہ یہ تھی کہ مزکورہ شعبے کا ماہر ایسا کوئی دوسرا شخص موجود ہی نہیں تھا۔ یہاں پر یہ بات میں پوری ذمے داری کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ کراچی سمیت سندھ اب گریڈ 20 کی اسامیوں کے لیے ایماندار، دیانتدار اور اسلامی اصولوں کے پابند افسر نایاب ہوچکے ہیں جو رہ گئے ہیں وہ موجودہ ’’کرپشن زدہ‘‘ حالات میں کسی اہم پوسٹ پر لگنا ہی نہیں چاہتے۔ محترم دبلے پتلے ’’الف صاحب‘‘ بھی مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتے تھے مگر شاید ذاتی حالات کنٹریکٹ کی بنیاد پر مزید ملازمت کا یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ ان کی خوش فہمی تھی کہ ان سے ماضی کی طرح ہی کام لیا جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا صرف چند ماہ بعد ہی کرپشن کا سدباب کرنے والے ادارے سے انہیں ایک افسر نے فون کیا اور کہا کہ ’’آپ ذرا دفتر آجائیں آپ کے خلاف شکایت آئی ہے‘‘۔ الف صاحب نے کالر کو جواب دیا کہ آپ جو بھی ہیں مجھ سے اس طرح فون پر بات نہیں کریں، اگر کوئی شکایت ہے تو مجھ سے طریقہ کار کے تحت تحریری نوٹس یا کال لیٹر کے ذریعے رابطہ کیا جائے یا بلایا جائے، میں کسی کے فون پر کسی کو رپورٹ کرنے والا افسر نہیں ہوں۔
الف صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اس کال کو انہوں نے کسی افسر کی شرارت جان کر نظر انداز کردیا لیکن پھر چند روز بعد ایک افسر براہ راست ان کے دفتر میں بغیر وقت لیے پہنچ گئے اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’’جناب آپ نے سرکاری فنڈز میں گھپلے کیے ہیں اس لیے آپ کو ہمارے دفتر آنا پڑے گا اور اس بارے میں سوالات کے جواب دینے ہوںگے۔ الف صاحب نے مذکورہ افسر کی گفتگو سننے کے بعد کہا کہ ’’اگر کوئی سرکاری لیٹر ہے تو مجھے دے جائیں میں حاضر ہوجائوں گا لیکن زبانی بات پر کوئی عمل نہیں کروںگا‘‘۔ مذکورہ افسر الف صاحب کی بات پر طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’شاید آپ کو سرکاری عہدوں پر رہنے کا طور طریقہ نہیں معلوم یہی وجہ ہے کہ آپ کسی کو لفٹ نہیں کراتے ہیں، ہم آپ کو یہاں سے گرفتار کرکے بھی لے جاسکتے ہیں‘‘۔ یہ سن کر الف صاحب نے کہا جو بھی آپ کو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں، غیرقانونی کام آپ میرے ساتھ نہیں کرسکیں گے‘‘۔ یہ بات سن کر وہ افسر تو واپس چلا گیا لیکن ایک شریف افسر کے تن بدن کو جو ہوتا ہے اسی کیفیت میں وہ مبتلا ہوئے اور چیف سیکرٹری کے نام ملازمت سے ’’مستعفی‘‘ ہونے کا لیٹر لکھا اور چیف سیکرٹری کے دفتر پہنچ گئے۔ چیف سیکرٹری کو ساری صورتحال بتائی اور واضح طور پر کہا کہ ’’سر مجھے ان حالات میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے بلکہ ایسا واقعہ تو پہلی بار میرے ساتھ پیش آیا ہے، بس میرا استعفا قبول کیجیے اور مجھے اجازت دیجیے۔ الف صاحب کا کہنا ہے کہ چیف سیکرٹری نے انہیں استعفے کا فیصلہ واپس لینے پر اصرار بھی کیا مگر انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ البتہ الف صاحب نے چیف سیکرٹری سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ’’سر مجھے ڈر ہے کہ یہ لوگ مجھے آئندہ بھی بلاوجہ تنگ کریں گے۔ اس لیے پلیز آپ اس معاملے کو دیکھ لیجیے گا‘‘۔ چیف سیکرٹری نے یقین دلایا کہ آپ بے فکر رہیں آپ کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کرے گا آپ کا سروس ریکارڈ بہت اچھا ہے‘‘۔ یہ واقعہ پڑھ کر قارئین کو یقین ہورہا ہوگا کہ ’’جب بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے افسران خود کرپشن کریں گے تو کرپشن کیسے رکے گی۔