عدالت عظمیٰ :قتل کے  2 ملزمان کی ر ہائی کا حکم ، ایک کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

111

اسلام آباد(صباح نیوز)عدالت عظمیٰ نے 3 بہن بھائیوں کے قتل میں ملوث شریک ملزم حسنین مصطفی کی درخواست ضمانت منظورکرتے
ہوئے رہا کر دیا۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی مرکزی ملزمہ انیقہ پہلے ضمانت پر رہا ہو چکی ہے، ملزم نے اپنی مبینہ محبوبہ انیقہ کے ساتھ مل کر3 بچوں کو قتل کیا تھا،تینوں بچوں کی والدہ انیقہ بھی مقدمے میںملزمہ ہے ،قتل کا واقعہ لاہور میں مارچ 2018ء میں پیش آیا تھا۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے دہرے قتل کے ملزم شہزاد عرف سجاد کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے بریت کا حکم فریقین کے درمیان صلح کی بنیاد پرسنایاہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ٹرائل کورٹ نے ملزم شہزاد عرف سجاد کو سزائے موت سنائی تھی ، ہائی کورٹ نے ملزم شہزاد کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیاتھا، اس مقدمے میں وڈیو لنک کے ذریعے وکلا نے لاہور رجسٹری سے دلائل دیے ۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ شہزاد عرف سجاد پر رمشا بی بی اور کاشفہ بی بی کے قتل کا الزام تھا۔سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ کتوں کی لڑائی ہوئی تھی جس پر یہ واقعہ پیش آیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بڑی عجیب بات ہے ،کتوں کی لڑائی ہوئی اور انسان قتل ہو گئے۔ دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے 4افراد کے قتل میں سزا یافتہ مجرم محمد سلیم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا، محمد سلیم کی سزائے موت ختم کرنے کی اپیل مستردکردی گئی۔چیف جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی توعدالت کو بتایا گیا کہ محمد سلیم نے ساتھی مراد سے مل کر 2000 ء میں فیصل آباد کے علاقے سمندری میں 4 لوگوں کو قتل کیا۔پراسیکیوٹر پنجاب کا کہنا تھا کہ مقتولین کے ورثا کہتے ہیں ملزمان پہلے بھی قتل اور ڈکیتی میں ملوث ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ملزمان قتل کرنے کی غرض سے آئے تھے تو آتے ہی فائرنگ کر دیتے، ایف آئی آر سے لگتا ہے کہ واقعے سے پہلے تلخ کلامی ہوئی، ایسا لگتا ہے ملزمان کو فائرنگ پر اکسایا گیا ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب کسی مقدمے میں تنازع کی اصل وجہ پتا نہ چلے تو پھر احتیاط کے تقاضے شروع ہو جاتے ہیں، یہاں زندگی اور موت کا سوال ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں استغاثہ مقدمے کا مقصد ثابت نہیں کر سکا،ایف آئی آر میں بھی لکھے گئے شواہد ثابت نہیں ہوئے، درخواست گزار نے خود کہا کہ قتل کی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں تھی واقعہ اچانک پیش آیا۔
عدالت عظمیٰ