قصہ ہابیل و قابیل

655

یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب روئے زمین پر انسانی زندگی ابتدائی حالت میں تھی اور بی بی حوا کے بطن سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک ساتھ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسری مرتبہ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ کر دیا جاتا تھا۔ ہابیل اور قابیل یہ دونوں آدم علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ جب یہ جوان ہوئے تو دستور کے مطابق آدم علیہ السلام نے قابیل کا نکاح غازہ کے ساتھ جو ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی، کرنا چاہا تو قابیل اس بات پر رضامند نہیں ہوا کیونکہ اقلیما، غازہ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت تھی۔ جو قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔
آدم علیہ السلام نے قابیل کو سمجھایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے لہٰذا تم یہ بات مان لو۔ اقلیما تمہارے ساتھ پیدا ہوئی ہے اس لیے وہ تیری بہن ہے، اس کے ساتھ تیرا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مگر قابیل اپنی بات پر اڑا رہا۔ بالآخر آدم علیہ السلام نے ان دونوں بھائیوں کو حکم دیا کہ تم دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ کے حضور میں پیش کرو۔ جس کی قربانی مقبول ہوگی وہی اقلیما سے نکاح کا حق دار ہوگا۔ اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت کی علامت یہ تھی کہ لوگ اپنی قربانیاں پہاڑ پر رکھ دیتے تھے اور آسمان سے آگ آکر انھیں کھا جاتی تھی۔
قابیل کھیتی باڑی کرتا تھا اور ہابیل جانور پالتا تھا۔ چنانچہ قابیل نے گندم کی بالیاں اور ہابیل نے ایک خوبصورت، موٹا تازہ مینڈھا قربانی کے لیے ایک پہاڑ پر رکھ دیا اور اللہ سے دعا مانگی یا الٰہی ہماری قربانی کو قبول فرما۔ آسمان سے آگ آئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کو کھا لیا اور قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔ جس سے قابیل کے دل میں ہابیل کے لیے غصہ، حسد اور بغض پیدا ہوگیا اور وہ ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے مار ڈالوں گا کیونکہ تیری قربانی قبول ہوگئی ہے۔ ہابیل نے قابیل سے کہا۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے اگر تو میرے قتل کے لیے مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔
قربانی دے کر دونوں بھائی آدم علیہ السلام کے پاس آئے، آدم علیہ السلام نے فرمایا: اے قابیل تیری بہن اقلیما اب ہابیل پر حلال ہوئی اور تجھ پر حرام۔ قابیل اب مایوس ہوچکا تھا کہ اقلیما اس کے نکاح میں نہیں آسکتی اس لیے وہ ہابیل کو مارنے کی تدبیر میں رہنے لگا۔ اس دوران آدم علیہ السلام جب مکہ چلے گئے، تو ایک دن قابیل نے دیکھا کہ ہابیل سورہا ہے تو سوچنے لگا کہ اسے کس طرح سے ماروں کیونکہ اس زمانے تک کسی نے کسی کو نہیں مارا تھا۔ جب شیطان نے دیکھا کہ اسے قتل کرنے کا طریقہ نہیں آتا تو اس لعین نے ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر دوسرا پتھر زور سے اس کے سر پر دے مارا جس سے وہ جانور اسی وقت مر گیا۔ یہ ترکیب دیکھ کر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کے ساتھ یہ ہی کیا اور زمین پر سے ایک پتھر اٹھا کر ہابیل کے سر پر دے مارا، اور اپنے بے گناہ بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔
ہابیل کے قتل کے بعد قابیل یہ سوچ کر بے حد پریشان ہوا کہ اب اس لاش کا کیا کرے۔ یہ روئے زمین پر کسی انسان کا یہ پہلا قتل تھا، کیونکہ اس سے پہلے کوئی آدمی مرا ہی نہیں تھا۔ اس لیے قابیل حیران و پریشان تھا کہ بھائی کی لاش کو کیا کروں، چنانچہ وہ کئی روز تک بھائی کی لاش کو اپنی پیٹھ پر لاد کر پھرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے اس نیک بندے کی لاش کی بے حرمتی منظور نہ تھی چنانچہ اس جگہ پر دو کوّے آئے اور وہاں آکر آپس میں لڑے اور ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ پھر زندہ کوّے نے اپنی چونچ اور پنجوں سے زمین میں گڑھا کھود ا اور اس میں اس مرے ہوئے کوّے کو ڈال کر مٹی سے دبادیا۔ کوّے کو دیکھ قابیل اپنے اوپر ملامت کرنے لگا کہ میں اس کوّ ے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اتنا بھی نہ کرسکا۔ اس طرح قابیل کو معلوم ہوا، کہ ہابیل کی لاش کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کردینا چاہیے۔ چنانچہ اس نے ایک گڑھا کھود کر اس میں اپنے بھائی ہابیل کی لاش کو دفن کردیا۔
جب آدم علیہ السلام مکّہ سے واپس آئے اور ہابیل کو نہ پایا تو اس کو بہت تلاش کیا، مگر وہ نہ ملا، لوگوں سے پوچھنے لگے، کسی نے جواب دیا کہ ہابیل کچھ دنوں سے غائب ہے۔ آدم علیہ السلام نے ہابیل کے صدمے میں کھانا پینا اور سونا سب ترک کردیا اور شب و روز ہابیل کے غم میں رہنے لگے۔ ایک روز آپ نے خواب کی حالت میں دیکھا کہ ہابیل الغیاث الغیاث، اے پدر، اے پدر، پکار رہا ہے، آدم علیہ السلام نیند سے چونک کر اٹھے اور زار زار رونے لگے۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے اور آدم علیہ السلام اور حوا کو ہابیل کی قبر پر لے گئے۔
آدم علیہ السلام اور حوا نے قبر کھود کر ہابیل کو دیکھا کہ اس کا مغز نکلا ہوا ہے اور وہ خون سے آلودہ ہورہا ہے۔ یہ حال دیکھ کر آپ دونوں بہت روئے۔
اور ہابیل کی لاش کو ایک تابوت میں بند کرکے اپنے مکان میں لاکر دفن کردیا۔ اس وقت آپؑ کے ایک سو بیس بیٹے تھے جن میں سے سوائے ہابیل کے کوئی نہیں مرا تھا۔
روایت ہے کہ جب ہابیل قتل ہوگئے تو سات دن تک زمین میں زلزلہ رہا۔ قابیل جو بہت خوبصورت تھا بھائی کا خون بہاتے ہی اس کا چہرہ بالکل سیاہ اور بدصورت ہوگیا۔ آدم علیہ السلام نے قابیل کو اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ یمن کی سر زمین عدن میں چلا گیا، وہاں ابلیس اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لیے کھالیا تھا کہ وہ آگ کی پوجا کرتا تھا لہٰذا تو بھی آگ کی پرستش کیا کر۔ چنانچہ قابیل پہلا شخص ہے جس نے آگ کی پرستش کی اور زمین پر یہ پہلا شخص ہے جس نے اللہ کی نافرمانی کی اور زمین پر خون ناحق کیا۔ یہ وہ پہلا مجرم ہے جو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ زمین پر قیامت تک جو بھی خونِ ناحق ہوگا۔ اس کے عذاب کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ قابیل پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔ قابیل کا انجام یہ ہوا کہ اس کے ایک لڑکے نے جو کہ اندھا تھا۔ اس کو پتھر مار کر قتل کردیا۔ اور یہ بدبخت آگ کی پرستش کرتے ہوئے کفر و شرک کی حالت میں اپنے لڑکے کے ہاتھ مارا گیا۔
(تفسیر ابن کثیر جلد دوم صفحہ 56-60، روح البیان جلد دوم، صفحہ183 )