بیماریاں، گندگی اور ترجیحات

561

ملک بھر میں ڈینگی سمیت دیگر وبائی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں دن پر دن اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں روزانہ اموات بھی ہورہی ہیں ۔ حالیہ بارشوں کے بعد ملک بھر میں اور خصوصی طور پر کراچی میں صحت و صفائی کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے ۔ برسات کو گزرے کئی ہفتے گزر گئے ہیں مگر ابھی تک بارش کا پانی جگہ جگہ کھڑا ہے ۔ جن مقامات سے پانی ازخود سورج کی تمازت سے خشک ہوگیا ہے وہاں پر گٹر کے پانی میں شامل غلاظت اب خشک ہو کر پورے شہر میں ہوا کے ساتھ اڑتی پھر رہی ہے اور دمہ کے علاوہ سانس کی دیگر بیماریوں اور آشوب چشم کا باعث بن رہی ہے ۔ ایک طرف پورے پاکستان میں ڈینگی اور دیگر وبائی بیماریاں بے قابو ہیں اور اموات کی تعداد ہی چند ہفتوں میں درجنوں تک پہنچ گئی ہے دوسری طرف حکومت اس کی کوئی فکر کرنے کے بجائے غیر متعلقہ مسائل میں الجھی ہوئی ہے ۔ حکومت کی توجہ ڈینگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ اس کی پوری توجہ پولیو پر ہے ۔ پولیو سے اب تک ملک میں کوئی موت نہیں ہوئی ہے جبکہ اس سے معذور ہونے والوں کی تعداد بھی دس سے زاید نہیں ہے ۔ یہ بات کوئی عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر وسائل محدود ہوں تو ترجیح کسے دی جائے گی، بوگس پولیو کے خلاف مہم کو یا ڈینگی اور دیگر وبائی بیماریوں کے خلاف جنگ کو ۔ اگر ملک میں صفائی کا مسئلہ حل کردیا جائے تو شہری ہیپاٹائٹس ، آشوب چشم ، دمہ ، ڈینگی ، فلو اور ملیریا جیسی کئی بیماریوں سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ان امراض کے علاج میں شہری اور حکومت دونوں اربوں روپے ماہانہ کے اخراجات کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ان امراض کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں بھی روز ضائع ہوتی ہیں ۔ مگر حکومت کی توجہ اپنے شہریوں کی صحت اور ان کی جان بچانے کے بجائے غیر ملکی ایجنڈے پر ہے ۔ صحت کے مناسب انتظامات اور صفائی ستھرائی حکومت کے بنیادی وظائف میں سے ہے ۔ اگر حکومت کی نااہلی کی وجہ سے شہری بیمار اور جاں بحق ہورہے ہیں تو اس کی ذمے داری براہ راست حکومت پر ہی عاید ہوتی ہے ۔ یہ حقائق کتنے خوفناک ہیں کہ شہری گیسٹرو اور ہیپا ٹائٹس کا اس لیے شکار ہیں کہ انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ، ملیریا اور فلو کا اس لیے شکار ہیں کہ گندگی کی وجہ سے مچھر اور مکھی لاتعداد پیدا ہوگئے ہیں ۔ اگر صرف صفائی پر ہی توجہ دے لی جائے تو ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے مگر حکومت کی ترجیحات ہی دیگر ہیں ۔