کوئی کسی کو کما کر نہیں دیتا

444

ڈاکٹر خالد مشتاق

ہمارے ساتھی ڈاکٹر داس او پی ڈی میں اداس بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب خیریت ہے، کہنے لگے خالد صاحب بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میرے بہنوئی کے ساتھ بڑا فراڈ ہو گیا ہے۔ بہن بہت پریشان ہے، بہن کی طبیعت خراب ہے۔ اسے دورے پڑ رہے ہیں۔ بار بار بے ہوش ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تفصیل بتائی کہ ان کے بہنوئی کے بہت قریبی رشتے دار نے چشموں کا اور موبائل کا کام شروع کیا، باہر سے موبائل اور چشمے منگواتے اور حیدرآباد کے مختلف اضلاع، کراچی حیدرآباد شہر میں بیچتے ہیں۔ کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ بہنوئی کو اس کا رشتے دار بہت نفع دیتا، بہنوئی نے 3 لاکھ روپے کاروبار میں لگائے تھے۔ جس کا منافع 8000 ماہانہ ملتا۔ بہنوئی نے بہن سے مشورہ کیا اس نے اپنا زیور بیچ کر 20 لاکھ روپے اور لگا دیے۔ اب انہیں تقریباً 70 ہزار روپے ماہانہ ملنے لگے۔ بہنوئی کے رشتہ دار نے کہا کہ اگر ہمیں 80 لاکھ روپے اور مل جائیں تو کاروبار تیزی سے ترقی کرے گا۔ ہم سامان باہر سے منگواتے ہیں رقم پہلے بھیجنا پڑتی ہے۔ میری بہن کے رہن سہن میں واضح تبدیلی آگئی۔ وہ بہت مذہبی لڑکی ہے۔ آشرم اور مندر باقاعدگی سے جاتی ہے۔ لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ دولت کی دیوی میری بہن پر مہربان ہو گئی ہے۔ ہم ہندئوں میں تصور (Concept) ہے کہ دولت کی الگ دیوی ہوتی ہے اور وہی دولت دیتی ہے۔ بس پھر کیا تھا، سب عورتیں میری بہن سے راز پوچھتیں اور وہ بہنوئی کے رشتے دار کے کاروبار کے بارے میں بتا دیتی۔ ہمارے رشتے دار بہنوئی سے ملتے اور رقم انویسٹ کرتے، جب کاروبار زیادہ بڑھا تو بہنوئی کے رشتے دار نے ہمارے بہنوئی کو پارٹنر بنا لیا۔
اب اپنی رقم کا منافع بھی ملتا اور کاروبار کا حصہ بھی۔ ہماری برادری میں ہمارے والد صاحب کا بڑا نام ہے۔ ہماری بہن کے مذہبی پس منظر اور آشرم میں آنے والوں کی خدمت کرنے، لڑکیوں کی شادیوں میں مدد دینے کی وجہ سے بھی ہم بڑے سمجھے جاتے ہیں۔
بہنوئی کو ہمارے اسٹیٹس (Status) کا بہت فائدہ ہوا۔ ہماری بہن سے اس کی سسرال کے لوگ بھی متاثر تھے۔ یہ پڑھی لکھی ہے۔ سندھ یونیورسٹی سے ماسٹر کیا ہے۔ اس کی سسرال کی خواتین نے بھی زیور بیچ کر کاروبار میں رقم لگا دی۔ سب کو ماہانہ رقم مل رہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا میں نے بہن کو بتایا کہ کسی دوسرے کو کاروبار کے لیے رقم نہیں دیتے۔ یہ ناممکن کاروبار ہے۔ لیکن رزلٹ یہ آیا کہ بہنوئی نے ملنا چھوڑ دیا۔ تم ڈاکٹر ہو، کاروباری معاملات نہیں سمجھتے۔ تم ہماری ترقی سے جل رہے ہو۔ میں نے بزرگوں کا قول بتایا:
’’کوئی دوسرا کسی جانور کو چارہ نہیں ڈالتا‘‘۔
لیکن آنے والے منافع نے ان کی آنکھیں بند کر دی تھیں اور پھر نتیجہ وہی آیا جس کا مجھے خدشہ تھا۔ بہنوئی کا رشتے دار اچانک غائب ہو گیا۔ اس کا بہترین آفس نما چشمے کی دکان بند تھی۔ چند دن بعد پتا چلا کہ اس کا گھر بھی بند ہے۔ اس نے شادی لاڑکانہ کے ضلع میں کی تھی۔ گھر پر بھی تالا تھا۔ کسی کو پیغام ملا کہ وہ گنگا نہانے گیا ہے۔ مذہبی ٹور پر، اور اب لوگ ہیں بہن کے سسرال والے اور ہمارے رشتہ دار پورا شہر بہن بہنوئی کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ کوئی لڑ رہا ہے۔ چند لوگ میرے کلینک بھی آئے۔ ہماری برادری میں ناک کٹ گئی ہر طرف سے برائی ہی سننے کو مل رہی ہے۔ بہنوئی کو ایمرجنسی میں لے کر گئے، اٹیک ہوا تھا، بہن کو ڈپریشن میں فٹس (fits) پڑ رہے ہیں۔
میں نے یہ داستان سنی تو میرے سامنے فلم کی طرح آزاد کشمیر، اسلام آباد کے وہ واقعات آنے لگے، جن میں میرے کئی مریضوں کو نقصان ہوا تھا۔ لیکن انسان تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتا۔
گنگا جانے کے واقعے سے مجھے سابق سٹی ناظم کے دور کے ایک بیوروکریٹ یاد آگئے۔ جب بھی ان کے کرپشن کے معاملات پر ان کے گھر نیب چھاپا مارتی وہ عمرے کے لیے جا چکے ہوتے۔ مذہب کو ڈھال بنا کر اپنی کرپشن بچاتے۔ کالونی میں الفلاح کے علاقے میں ایسا واقعہ ہو چکا ہے۔ لوگ عبادات کو دکھا کر لوگوں کو متاثر کرتے ہیں اور جب سب کچھ ڈوب گیا تو درس دینے والا فرد غائب ہوگیا۔ یہ واقعات باغ، مظفر آباد، پنڈی، کراچی میں دیکھے تھے۔ لیکن اندرون سندھ پہلی مرتبہ دیکھا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
انسانوں کی خواہشات یہ سب کراتی ہے۔
جلد امیر بننے کی خواہش انسان پر جب طاری ہوتی ہے تو اس میں صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اس کے کان کسی بھی فرد کا بھلا مشورہ نہیں سنتے۔ اسے اپنی کامیابی سامنے فوراً نظر آتی ہے۔ لیکن اس کامیابی سے پہلے جو گہرا گڑھا ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ وہ خود بھی اس میں گر کر اپنے آپ کو ذہنی طور پر تباہ کر لیتا ہے اور اپنے خاندان رشتے داروں، دوستوں کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔
نارتھ کراچی کے ایسے دو افراد نے مجھ سے حال ہی میں ملاقات کی اور اپنے مسائل بتائے، یہ مریض بن گئے تھے۔ اس کے بعد جو پچھلے ماہ ڈاکٹر صاحب نے واقعہ سنایا تو میں نے لوگوں کی آگاہی اور شعور کے لیے یہ لکھا۔ یہ واقعات آج بھی ہو رہے ہیں، ان سے بچنے کا انمول طریقہ بہت آسان ہے۔
1۔ جلدی امیر بننے کی خواہش ختم کریں۔
2 ۔ اپنی محنت کے عوض کمانے کا سوچیں، یاد رکھیں ’’کوئی کسی کو کما کر نہیں دیتا‘‘۔ یہ بزرگوں کا قول ہے۔
3۔ اگر کسی سے کاروبار کرنا ہی ہے تو لکھ کر، Affidavit پر وکیل سے لکھوائیں، اگر اکائونٹ ہے تو Joint Account بنائیں۔
4۔ صرف وہ کاروبار کریں جس کا تجربہ ہو یا اگر نیا کاروبار کرنا ہے تو اس میں جاب کریں، تجربہ حاصل کریں۔ پھر کاروبار کریں۔
5۔ کاروبار میں بنیادی سوچ یہ ہو کہ میں دوسروں کو بھی دوں گا، سیٹھ بننے کے بجائے شراکت داری کے اسٹائل میں چلیں۔
6۔ کاروبار میں غریبوں کے لیے ایک حصہ ضرور رکھیں۔