کل پاکستان اجتماع عام جماعت اسلامی پاکستان(باب یازدہم)

487

محمود عالم صدیقی

جون ۱۹۶۴ء کے وسط میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی پر پابندی کے خلاف رٹ درخواست مسترد کردی۔ یہ فیصلہ ۱۹۰۸ء کے ایک ایکٹ کے تحت کیا گیا۔ ہائی کورٹ بنچ کے ایک رکن فاصل جج جسٹس وحید الدین احمد نے اپنے ایک الگ فیصلے میں یہ لکھا کہ: ’’درخواست دہندگان کو صفائی کا کوئی موقع نہیں دیا گیا‘ اس طرح انہیں جماعت سازی کے اس بنیادی حق سے محروم کردیا گیا‘ جو پاکستان کا دستور انہیں عطا کرتا ہے۔ مجھے اس بات میں ذرہ برابر شبہ نہیں کہ پابندی کے حکم سے فطری انصاف کے تقاضے متاثر ہوئے ہیں اور غیر قانونی ہونے کی بناء پر ایسے حکم کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے‘‘۔
مشرقی پاکستان ہائی کورٹ میں بھی‘ جماعت اسلامی پر پابندی کے خلاف رٹ درخواست دائر کی گئی تھی۔ ۱۳؍ جولائی ۱۹۶۴ء کو اس کی خصوصی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے جماعت اسلامی کو غیر قانونی جماعت قرار دینے والے ۶؍ جنوری کے نوٹس کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ فوجداری قانون کے ترمیمی ایکٹ مجریہ ۱۹۰۸ء کی دفعہ ۱۶‘ جس کے تحت جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دیا گیا ہے‘ غیر قانونی ہے۔
جولائی کے آخر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اے۔ آر۔ کارنیلیس نے مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جماعت اسلامی کی اپیل کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی۔
۲۵؍ستمبر ۱۹۶۴ء کوسپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کی اپیل منظور کرتے ہوئے اس پر پابندی کے حکم کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مشرقی پاکستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت کی اپیل رد کردی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جماعت اسلامی کے نظر بند رہنمائوں نے نظر بندی کے قانون کو صوبائی ہائی کورٹوں میں چیلنج کردیا۔ مشرقی پاکستان کے نظر بند وہاں کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد رہا ہوگئے۔ مغربی پاکستان میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے رفقا کی رٹ کی درخواست کی سماعت ۲۹؍ ستمبر ۱۹۶۴ء کو ہوئی۔ ۱۵؍ اکتوبر کو عدالت نے فیصلہ محفوظ کرکے ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے فل بنچ نے نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تمام اسیروں کی رہائی کا حکم دے دیا۔
آمریت کے خلاف جماعت اسلامی کی مہم
۲۵؍ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو موچی دروازہ لاہور میں جماعت اسلامی کا ایک جلسہ عام ہوا‘ جس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سیّد مودودیؒ نے ایوب خان کو متعدد غیر آئینی اور غیر قانونی استبدادی اقدامات کا مجرم قرار دیتے ہوئے‘ انہیں عہدہ صدارت کے لیے نا اہل قرار دیا۔ ان اسباب میں عوام کے اعتماد کو مجروح کرکے ملک کی حفاظت کے بجائے اس کا مالک بن بیٹھنا‘ پورے ملک میں پونے چار سال تک مارشل لا نافذ رکھنا‘ سول انتظامیہ اور عدالتوں کی موجودگی میں فوجی عدالتیں قائم کرنا‘ مارشل لا کے نفاذ کے دوران بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات اور غیر جمہوری طورپر بنیادی جمہوریتوں کے اراکین کے ووٹوں کے ذریعے بغیر کسی مدمقابل امیدوار صدارت کے صدر بن بیٹھنا‘ خود اپنے ہی مقرر کردہ آئینی کمیشن کی سفارشات کو تسلیم نہ کرنا اور مارشل لا کی حالت میں شخص واحد کا تیار کردہ غیر جمہوری اور غیر اسلامی آئین ملک و قوم پر مسلط کرنا شامل تھا۔ انھوں نے جمہوری اقدار کی بحالی کی خاطر اور آمریت کے خاتمے کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کو کامیاب بنانے کی اپیل کی۔
محترمہ فاطمہ جناح بطورصدارتی ا میدوار
اس جلسے سے پہلے ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو حزب اختلاف کی جماعتوں کے متحدہ محاذCombined) (Opposition Parties (COP)نے ایک اجلاس میں محترمہ فاطمہ جناح‘ ہمشیرہ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح سے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی تھی۔محترمہ فاطمہ نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود لیکن ملک و ملت کی بقا اور آمریت کے خاتمے کی خاطر قبول کرلیا تھا۔
(جاری ہے)