معاشی صورتحال تشویشناک حد تک روبہ زوال ہے ، فاروق شیخانی

120

حیدرآباد (کامرس نیوز) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد فاروق شیخانی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت سے معاشی و معاشرتی ترقی اور اصلاحات کی اُمید تھی جو اُس کی منفی پالیسیوں جو بیورو کریسی کی مرہون منت ہیں روزانہ کی بنیاد پر زوال پذیر ہے جبکہ دوسری طرف عوام اور کاروباری حضرات کو ٹیکس چور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور کوئی پالیسی بناتے وقت قطعاً اُن کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ حالانکہ حکومت کی پالیسیاں ناقابل عمل اور ناکام ہیں، موجودہ حکومت نے آنے کے بعد کوئی جدید، مثبت اور دیانتدارانہ ٹیکس کا نظام وضع نہیں کیا اور عوام اور تاجر جو ماچس، پیٹرول کے ہر لیٹر، یوٹیلیٹی بلز پر چارجز اور محصولات جمع کراتی ہیں لیکن دیانتدارانہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ ٹیکس اور محصولات حکومتی خزانے میں جانے کے بجائے کرپٹ لوگوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ عوام اور تاجر اشیائے ضرورت کی ہر چیز پر ٹیکس اور محصولات کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں لیکن پھر بھی اُس کو ٹیکس چور کہا جاتا ہے اُن سے مشورہ کرنے اور اصلاحات کے لیے اُن کی آراء طلب کرنے کے بجائے اُن کی پکڑ دھکڑ اور اُن کی تذلیل کرنا حکومت نے اپنا شیوہ بنالیا ہے اور اِس کے باوجود وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ حالانکہ تاجر و صنعتکار سے لے کر ایک کیبن ہولڈر تک لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں اِس لیے وہ حکومت سے کہیں گے کہ وہ کاروباری حضرات کو ٹیکس چور کا لقب دینے کے بجائے اُن کو معاشی اصلاحات کے لیے اعتماد میں لیں تاکہ باہمی یگانگت اور دوستانہ ماحول میں خراب معاشی حالات پر قابو پایا جاسکے اور معاشی طور پر مضبوط ہونے پر پاکستان ترقی کرے اور ہم بھی دُنیا میں ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے میں فخر محسوس کرسکیں۔ اندیشہ اِس بات کا ہے کہ وہ پھر اپنے اِرد گرد اِکھٹے کیے گئے بیر بَلوں اور ملاں دو پیازوں سے مشورہ کے بعد ایک اور منی بجٹ دینے کی تیاری کررہی ہے جس کا لامحالہ بوجھ غریب عوام پر پڑے گا لیکن اِس کے برخلاف حکومت رَٹ لگائے رکھتی ہے کہ عام آدمی پر اِس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اُنہوں نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے وصول کردہ ٹیکسوں اور محصولات کا جدید طرز پر فول پروف نظام بنائیں تاکہ اُنہیں پتہ چلے کہ حکومت کو پانی، کولڈ ڈرنکس، موبائل فونز سروسز بشمول انٹرنیٹ، ہوٹلز ، بڑے اسٹورز اور ریسٹورنٹس پر کتنا ٹیکس وصول ہورہا ہے اور درآمدات اور برآمدات کی صورت میں کتنا ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی مل رہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام سیوریج سے سڑکوں پر چلنے تک کا ٹیکس ادا کرتی ہے لیکن وہ کن کی جیبوں میں جارہا ہے حکومت کو اِس کا ادراک کرنے کے لیے ایک فول پروف نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اصل چور اُس کے سامنے آسکیں اور ملکی معیشت ترقی کی رہ پر گامزن ہوسکے۔