سانحہ بلدیہ جیسے المناک واقعات کی روک تھام کے لیے کار خانوں میں ہیلتھ اور سیفٹی کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ مقررین

1000

کراچی (اسٹا ف رپورٹر) سانحہ بلدیہ جیسے المناک واقعات کی روک تھام کے لیے کار خانوں میں ہیلتھ اور سیفٹی کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ گیارہ ستمبر 2012 کو صنعتی تاریخ کے بھیانک ترین حادثے میں شہید ہونے والے 260 مزدور آج بھی انصاف کے منتظر ہیں اور اس سانحہ کے ذمہ داران آزاد گھوم رہے ہیں جبکہ فیکٹریوں، کارخانوں اور کارگاہوں میں ہیلتھ اور سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے،

فیکٹری ملکان، حکومتی ادارے اور بین الاقوامی برانڈز آج بھی مزدوروں کو بدترین حالات میں کام کرنے پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال میں مزدور طبقہ کا اتحاد ہی انہیں سرمایہ کے جبر سے نجات دلا سکتا ہے،

ان خیالات کا اظہار مقررین نے سانحہ بلدیہ کی 7 ویں برسی پر منعقدہ تعزیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن کے زیراہتمام 11 ستمبر بروز منگل کو متاثرہ فیکٹری کے سامنے تعزیتی اجتماع کا انعقاد کیاگیا،

اجتماع میں شہید ہونے والے مزدوروں کے لواحقین اورزندہ بچ جانے والے مزدوروں کے علاوہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں اور سماجی و سیاسی کارکنوں نے بھرپور شرکت کی۔ اجتماع میں سندھ کے وزیر اطلاعات و وزیر امور محنت سید غنی نے بھی شرکت کی،

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ 7 برس گزرنے کے باوجود سانحہ کے ذمہ دار قانون کی گرفت سے باہر ہیں جبکہ فیکٹریوں اور کارخانوں میں ہیلتھ اور سیفٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے حادثات روز کا معمول بنے ہوئے ہیں،

حکومت سندھ نے2017 میں اکوپیشنل ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا قانون تو منظور کر لیاتھا لیکن اس پر عمل درآمد اب بھی سوالیہ نشان ہے۔جب کہ دوسری جانب تبدیلی سرکار کی ہونہار پنجاب حکومت نے تو مزدور دشمنی کا ثبوت لیبر انسپکشن پر پابندی عائد کرکے دے دیا اس کے علاوہ بلوچستان کے اکثر اداروں میں عدالتی حکم کے تحت یونین سازی کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا،

یہ مزدور دشمن اقدامات ایسے ملک میں ہو رہیں ہیں جس نے آئی ایل او کے 36 کنویشن کی توثیق کی ہوئی ہے، اس کا آئین تنظیم سازی کو بنیادی حق تسلیم کر تا ہے، پاکستان وہ ملک ہے جس نے پورپین یونین سے جی ایس پی پلس (GSP+) کے تحت خصوصی مراعات لے کر اپنی مصنوعات کے لیے یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہ لیبر او رانسانی حقوق کی پاسدری کر ے گا،

اور اسی طرح پاکستان میں ملبوسات تیار کروانے والے کئی ایک نامور بین الاقوامی برانڈز نے گلوبل فریم ورک ایگریمنٹ (GFA) کے تحت ٹیکسٹائل گارمنٹس میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے لیبر قوانین کے تحت حقوق کی ضمانت دی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بین الاقوامی و مقامی لیبر قوانین، آئینی تحفظ اور بین الاقوامی معاہدات کے باوجود فیکٹریاں کارخانے محنت کشوں کے لیے قتل گاہیں بننی ہوئی ہیں،

آئی ایل او کے مطابق ہر سال پوری دنیا میں 2.2 ملین افراد کام سے متعلق بیماریوں اور حادثات کے نتیجے میں مر جاتے ہیں جبکہ 270 ملین مزدور زخمی ہوتے ہیں۔ جی ایس پی کی ریویو رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر 25 واں ورکر کام کے دوران حادثے کا شکار ہوتا ہے۔حکومت پاکستان کا مزدورں کے حوالے سے رویہ نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ ہے۔

مزدور رہنماوں نے کہا کہ حکومت اور مالکان نے سانحہ بلدیہ سے سبق سیکھ کر مزدوروں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے بجائے صنعتی اداوں میں مزید خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ 68 ملین ورک فورس میں سے 1% سے بھی کم مزدور یونین میں منظم ہیں، 95% سے زائد فیکٹریاں غیر رجسٹرڈ ہیں، صرف 5% مزدوروں کے پاس تحریری تقرر نامے ہیں جبکہ تمام فیکٹریوں میں غیر قانونی ٹھیکیداری نظام جاری ہے،

ای او بی آئی اور سوشل سیکورٹی جیسے ادارے 5% سے بھی کم مزدوروں کو رجسٹرد کر پائے ہیں۔ یہ ساری بات اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ صنعتی تعلقات کے تمام قوانین اور ان پر عمل درآمد کروانے الے ادارے اپنی افادیت کھو چکے ہیں اور مالکان نے ملکی و بین الاقوامی قوانین اور آئین حقوق کو اعلانیہ تسلیم کرنے سے انکارکر دیا ہے،

اس عمل میں بین الاقوامی برانڈ بھی مجرمانہ غفلت کرتے ہوئے محنت کشوں کو تمام حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ صنعتی اداروں میں مالکان اور لیبر قوانین کا اطلاق کرنے والے اداروں کی ملکی بھگت سے جاری لاقوانیت مزدوروں میں ایک اسی بے چینی کو جنم دے رہی ہے جو کسی بھی لمحے لاوے کی طرح پھوٹ پڑے گی۔

مزدور رہنماؤں نے کہا کہ اگر حکومت صنعتی ترقی اور پیداورای عمل میں بہتری لانا جاتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ کام کی جگہوں پر مزدوروں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ ئ فیکٹریوں، کارخانوں میں ہیلتھ و سیفٹی کو یقینی بناتے ہوئے پرائیوٹ سوشل آدیٹنگ سسٹم کو ختم کی اجئے اور لیبر انسپکشن کو شہہ فریقی بنیادوں پر منظم کیا جائے،

تمام ورکرز کو ملازمت کے وقت سے تحریری تقررنامہ جاری کیا جائے اور اجرت بنک کے ذریعے ادا کی جائے۔ 8 گھنٹے کام کو یقینی بنیا جائے اور سرکاری طور پر اعلان شدہ کم از کم تنخواہ پر عمل درآمد نہ کرنے والے اداروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے،

تمام ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی سے رجسٹرڈ کیا جائے۔ پورپین ممالک اپنے ممالک میں اسی قانون سازی کرے کہ بین الاقوامی برانڈز کو انسانی اور لیبر حقوق کی خلاف ورزی پر جواب دہ بنایا جا سکے،

بنگلہ دیشن میں رانا پلازہ کے سانحہ کے بعد مزدوروں کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے ہونے والے بین الاقوامی معاہدے ” بنگلادیشن اکارڈ” کی طرح پاکستان میں بھی اس کا اطلاق کیا جائے تاکہ کام کی جگہوں کو محفوظ بنایا جا سکے،

فیکٹریوں کارکانوں خصوصاً ٹیکسٹائل اور گارمنٹس اور کانکنی میں لیبر معیارات کے اطلاق کو یقینی بنیا جائے۔ سانحہ بلدیہ کے حقیقی زمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لاکر قرارواقع سزادی جائے تمام فیکٹریوں کو فیکٹری ایکٹ کے تحت رجسٹرد کیا جائے اور OSH کے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے،

سانحہ بلدیہ فیکٹری کے شہید مزدوروں کے بوڑھے والدین کی ای او بی آئی پینشن کو تاحیات کیا جائے لواحقین کے گریجویٹی اور گروپ انشورنس کے کیسز گزشتہ سات سال سے کمشنر آف کمپنشین کے آفس میں چل رہا ہے ان کا فیصلہ فی الفور کیا جائے،

اجتماع میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور، پیپلز لیبر بیورو کے رہنما حبیب جنیدی پائلر کے جوائٹ ڈائریکٹرزالفقار شاہ، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیدریشن کی جنرل سیکرٹری زہرا خان، ورکرز رائٹ موومنٹ کے رہنما گل رحمان، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدر رفیق بلوچ، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن سندھ کے جنرل سیکرٹری ریاض عباسی، سانحہ بلدیہ ایسوسی ایشن کی چیرپرسن سعیدہ خاتون اور جنرل سیکرٹری عبد العزیز، شیخ مجید (پی آئی ایئر ویز یونین) اور زبیر رحمان سمیت دیگر شریک تھے۔