سندھ حکومت :ایس تھری منصوبے کا ایک فیز نجی شعبے کی مدد سے مکمل کرنے کا فیصلہ

127

کراچی (رپورٹ: محمد انور) حکومت سندھ نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو اینڈ ایس بی) کے نکاسی آب کے عظیم تر منصوبے ایس تھری کے ایک فیز ٹی پی ون کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مکمل کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے تحت ٹی پی ون کے تمام امور کو محکمہ فنانس کے شعبے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ( پی پی پی ) کے سپرد کردیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ ایک کے تحت 100 ملین گیلن یومیہ پانی کو صاف کرکے سمندر برد کیا جانا ہے۔ اس واسطے ایس تھری منصوبے کے تحت ابتدائی کام جاری تھا کہ ایک نجی ادارہ ’’حب کو لمیٹڈ‘‘ نے حکومت کو کراچی کی صنعتوں کو ان کی ضرورت کا صاف پانی فراہم کرنے اور ٹریٹمنٹ پلانٹ کے جملہ کام کرنے کی غرض سے ازخود پیشکش کی جسے حکومت نے ابتدائی طور پر تسلیم کرکے ٹی پی ون کے امور پی پی پی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر جنرل خالد محمود شیخ کے حوالے کردیے تاکہ اس پیش کش کو مدنظر رکھ کر اس منصوبے کو نجی شعبے کی مدد سے مکمل کیا جاسکے۔ اس ضمن میں نمائندہ جسارت نے جب پی پی پی پروگرام کے ڈی جی خالد محمود شیخ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ٹی پی ون کے منصوبے کے تحت ٹریٹمنٹ کیے جانے والے 100 ملین گیلن گند آب کو کو صاف کرکے سائٹ کی صنعتوں کو ان کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم کیا جائے گا۔ اسی مقصد کے لیے ٹی پی ون کے پروجیکٹ کو پرائیویٹ پبلک پارٹر شپ کے تحت مکمل کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے میں معاونت کے لیے ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی بھی مدد حاصل کی گئی ہے جو نجی ادارے کی سرمایہ کاری کے ساتھ پروجیکٹ پر کام کرکے اسے مکمل کرے گا بعدازاں سے آپریٹ بھی کرے گا۔ خالد محمود شیخ نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت کی کہ فی الحال اس منصوبے کے ٹینڈر وغیرہ کے مراحل شروع بھی نہیں ہوسکے جلد ہی بین الاقوامی ٹینڈرز کی طلبی کا کام شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ منصوبے پر تقریبا 12 ارب روپے کے اخراجات کا اندازہ لگایا گیا ہے جو معاہدہ کے تحت نجی ادارہ ہی خرچ کرے گا۔ خیال ہے کہ نجی ادارہ مذکورہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد صاف پانی صنعتوں کو فروخت کرکے آمدنی حاصل کرے گا۔ خیال رہے کہ ’’حب کو‘‘ بجلی فراہم کرنے کے لیے ایک پاور پلانٹ بھی چلارہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایس تھری منصوبے پر کام کا آغاز 2015ء میں ہوا تھا اسے 2019ء میں 32 ارب کی لاگت سے مکمل کیا جانا تھا جو تاحال مکمل نہیں ہوسکا۔
کے ڈبلیو اینڈ ایس بی