حافظ ساجد انور…… (نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان)

300

جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان اپنے قیام کے 45سال مکمل کر کے 46 واں یومِ تاسیس منارہی ہے۔ میں دینی مدارس کے طلبہ کو جمعیت طلبہ عربیہ کے یوم تاسیس کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں، مسلسل 45سال کی جدوجہد مکمل ہوئی، اللہ تعالیٰ تمام کارکنان، ذمہ داران کی جدوجہد اور سعی کو قبول ومنظور فرمائے۔ آمیں!
تعلیم وتعلّم کا یہ سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ دارِ ارقم کی صورت میں مکہ مکرمہ میں تعلیم وتربیت کا انتظام جاری تھا۔ ہجرت مدینہ کے بعد مسجد نبویؐ کی تعمیر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ میں ایک چبوترا بھی بنایا۔ یہ چبوترا صفہ کے نام سے معروف ومحفوظ ہے۔ یہ چبوترا درحقیقت اسلام کے ابتدائی باقاعدہ مدرسہ اور پہلی اقامتی درس گاہ تھی۔ اس مدرسے کے تمام طلبہ یہاں کل وقتی مقیم رہتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے جلیل القدر صحابہؓ سے قرآن وسنت پر مبنی تعلیم حاصل کرتے تھے۔
برصغیرپاک وہند میں اسلامی تہذیب وثقافت کے احیا اور حفاظت کے لیے دینی مدارس کا کردار تاریخی، عظیم الشان اور قابل ستایش ہے۔ درحقیقت یہ پوری جدوجہد مسجد نبویؐ کے مدرسہ صفہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر لادینیت، اباحیت، اشتراکیت، مغربی تہذیب، قرآن وسنت کی تعلیمات سے انحراف کی معاشرت اور مغربی استعمار کا ہر محاذ پر مقابلہ دینی مدارس کا ہی خاصہ ہے۔ یہ اسلام دشمنوں کی سازش تھی کہ فروعی اور فقہی معمولی اختلافات کو خوف ناک اختلافات کی صورت دی گئی جس سے مساجد، مدارس، خانقاہوں، مزارات اور امام بارگاہوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ ان تمام سازشوں کا پاکستان کے اکابر علما نے قراردادِ مقاصد، علما کے 22نکات، تحفظ ختم نبوت، تحفظ حرمت رسول اللہؐ، قرآن وسنت کی بالادستی کے لیے آئین پاکستان کی تشکیل اور حفاظت کا بڑا تاریخی کام کیا۔ لیکن رفتہ رفتہ سازشوں نے اپنا اثر پیدا کیا اور منبرومحراب، مساجد ومدارس علم وعمل، وحدت ویکجہتی کا نمونہ اور مثال بننے کی بجائے باہم جنگ وجدل کی پہچان بن گئے۔
ان حالات میں طالبان علوم نبوت میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت تھی جو اخوت ومحبت کے بیج بو کر اُمت کو وحدت کا درس دیتی، اسی ضرورت کو جمعیت طلبہ عربیہ نے پورا کیا۔ اس تنظیم نے مستقبل کے علما میں دینی بھائی چارے کا درس دیا اور کارکنان میں للّٰہیت، تقویٰ، علم وعمل کا جذبہ اجاگر کیا۔ جمعیت طلبہ عربیہ اخوت ومحبت، اتحاد واتفاق اور اخلاص جیسے امتیازی اوصاف کی بنیاد پر اپنے کارکنان کی بہت احسن طریقے سے تربیت کرتی ہے۔ تعصب، انانیت، فرقہ واریت، بعض اور عناد جیسے جراثیم سے پاک تنظیم ہے۔ دورِحاضر میں اس کام کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ اگرچہ یہ اعتراف بھی ناگزیر ہے کہ اس گئے گزرے دور اور حالات میں مساجد، مدارس، منبرومحراب بہت ہی شان دار تعمیری، دینی کردار ادا کررہے ہیں لیکن عالمی یلغار، استعماری دباؤ اور ملک کے اندر حکمرانوں، ریاستی نظام کی آستینوں میں چھپی بیٹھی دین سے بے زار سیکولرقوتیں مسلسل دینی تعلیم، اسلامی قوانین، ’مساجد ومدارس، اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات اور سیاسی نظام کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان حالات میں دینی مدارس کے طلبہ اور علما کے لیے کچھ نئے چیلنجز کاسامنا ہے۔ لہٰذا وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ منبرومحراب کے جانشین امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کو متحد کرکے کانھم بنیان مرصوص کا مصداق بنائیں اور دورِ حاضر کے چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے اس کے مقابلے کے لیے طلبہ کو منظم کریں۔