نشانہ اسلام ہی تھا

440

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ 2018کا الیکشن اسلام اور اسلامی تحریکوں کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ آج جہاد اور انقلاب کی بات کرنے والے کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور مسجدوں سے اسپیکر اتروائے جارہے ہیں۔ محترم سراج الحق نے بالکل درست بات کہی ہے اس کی تصدیق کی بھی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہر گزرنے والا دن اور حکمرانوں کا ہر قدم اس کی تصدیق کررہا ہے۔ کابینہ میں فواد چودھری جیسے دین بیزار لوگ موجود ہیں دوسرے افراد بھی علماء اور مذہبی معاملات پر الٹے سیدھے تبصرے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ معاملہ علماء یا مذہبی معاملات پر تبصروں کا نہیں ہے۔ معاملہ تو پاکستان کے نظام حکومت کا ہے۔ نظام عدل کا ہے، سود سے چھٹکارے کا ہے۔ دینی مدارس کو پابند کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کیے جارہے ہیں اور دینی مدارس کی تنظیمیں بھی اس کے خلاف کوئی بند باندھنے میں اب تک ناکام ہیں بلکہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ مدارس کی رجسٹریشن اور دیگر امور میں حکومتی پابندیاں قبول کرلی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی عہدوں پر اور بیوروکریسی میں بھی اسلام بیزار لوگ داخل کیے جارہے ہیں۔ پوری معاشی ٹیم لوگوں پر مشتمل ہے۔ جس وقت 2018کے انتخابات کے نتائج سامنے آرہے تھے اس وقت بہت واضح تھا کہ دینی واسلامی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ مل رہے تھے۔ خصوصاً کراچی میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کی پوزیشن بہت اچھی تھی لیکن اچانک گنتی رک گئی، نتائج آنا بند ہوگئے۔ 24اور 36گھنٹے بعد جو نتائج آئے ان میں اس قدر ردوبدل ہوا کہ پورے عمل کا نام ہی آپریشن ردوبدل رکھ دیا گیا۔ جس امیدوار کے ووٹوں کی تعداد شام 7بجے تک چار ساڑھے چار ہزار تھی وہ 16ہزار والے کے اوپر سے گزرتا ہوا 50ہزار عبور کرگیااور16ہزار والے کو بیس اکیس ہزار پر بریک لگ گئے۔ ایسا ایک جگہ نہیں کئی حلقوں میں ہوا۔ اس وقت پوری کوشش یہی تھی کہ مرکز میں خاص لوگوں کی حکومت قائم کی جائے اس کے لیے پورے ملک میں الیکٹ ایبلز کے نام پر نالائق لوگوں کی فوج ایک جگہ جمع کی گئی اور انہیں نشستیں مل گئیں۔ دینی جماعتوں کے امیدواروں کے خلاف باقاعدہ منظم مہم چلائی گئی۔ کسی کے بیلٹ بکس غائب کیے گئے اور کسی کا نتیجہ تبدیل ہوا۔ اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ نشانہ اسلام ہے۔ اس کے بعد سے حکومت کے ذریعے اسلام اور اسلامی تحریکوں کے خلاف کام ہورہا ہے۔ سراج صاحب چونکہ اس سازش کو بھانپ چکے ہیں تو اس کے خلاف دینی جماعتوں کو سر جوڑ کر بٹھانے کاکام بھی وہی کریں۔ ان کی پوزیشن دیگر دینی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے اور وہ سب کے لیے قابل احترام اور قابل قبول ہیں۔ دینی جماعتوں کو صورتحال کے تناظر میں مستحکم لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ضروری نہیں کہ کوئی اتحاد ہی بنے۔ مشترکہ اور متحدہ منظم کوششیں بھی دین بیزار لوگوں کا راستہ روکنے میں یارآور ہوسکتی ہیں۔