بانوں نے حجاب کیسے کیا

426

زرینہ انصاری

بانو گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے گھر بھر کی لاڈلی تھی ماں باپ کی آنکھوں کا تارا اور بڑے بہن بھائیوں کی چھوٹی سی دس سالہ گڑیا جسے ابا جان پیدل کم ہی چلنے دیتے تھے کہ میری بٹیا تھک جائی گی۔ بانو جوں جوں بڑی ہوتی گئی اس کے رنگ روپ میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیاگھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا اسے کسی بھی چیز کی کمی نہیں تھی کھانا پینا گھومنا پھرنا گھر کا ماحول بھی قدرے خوشگوار تھا اس لیے عمر کے ساتھ ساتھ بانوکا اعتماد بھی پروان چڑھ رہا تھا۔ بارہ برس کی ہو چکی تھی مگر گھر میں ٹک کر بیٹھنا کسی نے نہیں سکھایا تھا اسکول کے بعد سارا وقت کھیلنا بلکہ لڑکوں ساتھ کرکٹ کھیلنا پھر شام میں پڑوس کے کسی گھر میں جا کر اپنا پسندیدہ کارٹون پروگرام پاپائے دہ سیلر دیکھنا کیونکہ اس وقت گھر میں ٹی وی موجود نا تھا۔ گھر کا ماحول اس حد تک اسلامی تھا کہ امی ابو نماز کے پابند تھے اور حج کا فریضہ ادا کر چکے تھے دیگر اسلامی شعائر میں روزہ اور زکوۃ کا معاملہ بھی ٹھیک تھا شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقع پر بڑی بہنیں برقعہ پہن کر نکلتی مگر بانو جو اب آہستہ آہستہ جوانی میں قدم رکھتی جاتی تھی اس کو ہر طرح کی آزادی تھی اس کے لئے لباس بھی تنگ اور شوخ رنگ کے بنائے جاتے جس میں اس کا رنگ اور بھی نکھر کر آتا۔ پابندی سے دین کی چند باتوں پر عمل کرنے والےکبھی اس بات پر غور نہ کرسکے کہ ہماری بہن اور بیٹی کس حال میں باہر نکلتی ہے تنگ لباس ،بے حجاب ،کھلے بال اور گلے میں دوپٹہ ، کتنی میلی نگاہیں اس پر پڑتی ہونگی ،کتنے بد نیت لوگ اس پر اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہونگے، بانونے ان تمام آزادیوں کے باوجود اپنے لئےکچھ اصول بنائے ہوئے تھے۔ راستے میں آتے جاتے ہزاروں نگاہیں اس پر اٹھتیں کسی کی طرف بھی التفات نہ کرنا ،پڑوس میں جانے سے پہلے یقین دہانی کر لینا کہ گھر میں خواتین ہیں یا نہیں، غیر مردوں سے بے تکلف نا ہونا ، جہاں کہیں نظروں میں تھوڑی سی بھی لالچ نطر آتی بانو فورا ٹھٹھک جاتی۔
اس کو اس بات کا احساس کبھی نہیں ہوا کہ اس طرح بے حجاب باہر نکلنے سے وہ کتنے لوگوں کو گناہ میں مبتلا کررہی ہے۔وہ تو اپنی ہی دنیا میں مگن تھی۔آج بازار جانا تھا اپنی بھابی کو ساتھ لیا اور چل دی رکشہ کے انتظار میں کھڑی تھی رکشہ گزررہے تھے مگر بھرے ہوئے کوئی ٹھیلا تو کوئی گاڑی بانو سب کی نظروں کو نظارے کروا رہی تھی جب ایک گدھا گاڑی اس کے آگے سے گزری تو بانوکو بڑی کراہت محسوس ہوئی لیکن گدھا گاڑی چلانے والے کے الفاظ جب اس کے کانوں سے ٹکرائے تو بانوجیسے زمین میں گڑ گئی وہ بازار تو گئی اپنا کام نمٹا کر آگئی مگر اس کی دنیا تلپٹ ہوچکی تھی وہ تو ہمیشہ یہ سمجھتی رہی کہ مرد لوگ صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں مگر نہیں ایسا نہیں تھا پھر بانوں کو بچپن سے لیکر اب تک کے سارے واقعات یادنے لگے کہ وہ چھولے والاکس نظر سے دیکھتا تھا اور وہ دکاندار جس نے برملا بانو سے کہہ دیا تھا کہ تم تو پوری جوان عورت ہو جبکہ اس وقت بانوکاتیر واں سال تھا مگر قد کاٹھ کی وجہ سے اپنی عمر سے بڑی لگتی تھی۔ ان تما م سوچوں کے بعد دوسرے دن جو نتیجہ نکلا کہ بانو کی زندگی میں آنے والا اگلا دن اس کی دنیا بدل چکا تھا اب جب بانوگھر سے نکلی تو اس نے اپنےسر اپنی سینے پر اوڑھنی ڈال لی کیونکہ اس کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ حجاب ایک زندہ اور مومن عورت کے لئے ہے۔ ورنہ عورت کی میت کے سر پر رومال تو لپیٹ ہی دیتے ہیں کہ بال نظر نہ آئیں۔ بانوآ ج بھی جب ان بے حجاب بچیوں کو دیکھتی ہے تو اس کےدل سے ایک آہ سی نکلتی ہے اور وہ دل سے ان ماؤں کی ہدایت کے دعا کرتی ہے جو یوں اپنی معصوم کلیوں کو نظارے کے لئے چھوڑ دیتی ہیں۔