مزدور رہنمائوں کے مطالبات

441
پاکستان مشین ٹول فیکٹری ڈیلی ویجز ورکرز ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام PMTF کے ریٹائرڈ ملازمین کے لیے الوداعی پارٹی سے مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی، شبیر سومرو، معراج احمد اور دیگر خطاب کررہے ہیں
پاکستان مشین ٹول فیکٹری ڈیلی ویجز ورکرز ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام PMTF کے ریٹائرڈ ملازمین کے لیے الوداعی پارٹی سے مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی، شبیر سومرو، معراج احمد اور دیگر خطاب کررہے ہیں

پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے مرکزی صدر قموس گل خٹک، مرکزی سیکرٹری جنرل ظہور اعوان ، بلوچستان لیبر فیڈریشن کے چیئرمین خان زمان ، بلوچستان ریجن کے صوبائی صدر عبدالسلام بلوچ ، جنرل سیکرٹری علی بخش جمالی ، چیئرمین حسن بلوچ ، پاکستان ورکرز فیڈریشن بلوچستان کے صدر حاجی عبدالکریم، جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ و دیگر مزدور رہنما ئوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیسے کہ آپ کے علم میں ہے کہ مورخہ 24 جون 2019ء کو معزز بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے ایک فیصلہ صادر کیا گیا اور بیک جنبش قلم بلوچستان سے (62) ٹریڈ یونین تنظیموںکو ایک ہی آرڈر میںمنسوخ کیا۔ جس سے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں میںسخت تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بلوچستان کے صوبائی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے ان بنیادی حدود و قیود سے بڑھ کر کوئی ایسا ادارہ نہیں چھوڑا جہاں عرصہ دراز سے ان یونینز کا قیام موجود تھا۔ اور یہ آئین پاکستان کی دفعہ 17 کے ساتھ ساتھ یونیورسل ڈکلیئریشن آف یومن رائٹس (UDHR) اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے کنونشنز 87 اور 98 کی بھی مکمل خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس داخل کردیا ہے اور اسی کے ساتھ جلد ہی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) میں کمپلین داخل کردی جائے گی۔ اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پربھی سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزدوروں کے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ورزی پر انٹرنیشنل ٹریڈ یونینز کنفیڈریشن (ITUC) جو دنیا کے 190 ممالک میں 30 کروڑ سے زائد محنت کشوں کی ایک بین الاقوامی نمائندہ تنظیم ہے۔ انہوں نے دو روزہ اجلاس مورخہ 31 جولائی تا یکم اگست بمقام فجی (Fiji) میںبلوچستان کے مزدور تنظیموں پر عائد پابندی کے خلاف اپنے ایک اہم قرارداد کے ذریعہ (ILO) سے حکومت پاکستان کے خلاف سخت نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے اس طرح کے غیر آئینی اقدامات سے ILO کے تسلیم و توثیق کردہ کنونشنز نمبر 87 اور 98 جس میں مزدوروں کو انجمن ٹریڈ یونین سازی اور انجمن سودا کاری کے حق کو تسلیم کیا ہے مزدوروں کی بنیادی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ انٹرنیشنل ٹریڈ یونینز کنفیڈریشن (ITUC) نے اپنی قرارداد میں تمام ممالک کی ملحقہ تنظیمو ں کو سختی سے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت پاکستان اور بلوچستان کو مزاحمتی خطوط کے ذریعہ اپنے احتجاج ریکارڈ کرائیں ۔ اور بالخصوص بلوچستان حکومت کو ILO کی طرف سے تمام ٹیکینیکل اسسٹنس بند کی جائے اور ILO و دیگر تمام انسانی حقوق کے تنظیموں کے تعاون سے حکومت پاکستان بالخصوص بلوچستان حکومت کے ساتھ تمام تر سرگرمیاں فوری طور پر روک دی جائیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی شاخوں ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف، ایشین بینک کے ذریعے حکومت پاکستان پر اقتصادی پابندی اور یورپین یونین کے تعاون سے حکومت پاکستان جو جی ایس پی پلس (GSP+) کے فوائد حاصل کررہے ہیں انہیں جی ایس پی پلس (GSP+) سے باہر کیا جائے۔ اس تمام صورتحال سے بین الاقوامی سطح پرنہ صرف پاکستان بالخصوص بلوچستان کی بدنامی ہورہی ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کو بین الاقوامی دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے جس سے ہمارے اقتصادی اور معاشی حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مزدور تحریک ملک اور صوبے میں فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس طرح کے فیصلوں اور اقدامات سے ملک میں ریاستی سرپرستی میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارنہ نظام کو مزید مضبوط کیا جارہا ہے۔ ملکی کرنسی ڈی ویلیو ہوگئی ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی ایک سالہ دور اقتدار میں 400 گنا مہنگائی میں اضافہ ہوچکا ہے۔ ملک میں ہزاروں کی تعداد میں صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔ قومی اداروں کو نجکاری کے ذریعے فروخت کرکے مزید لاکھوں مزدوروں کو بیروزگار کیا جارہا ہے۔ حکمرانوں کی غلط اور ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی و بیروزگاری کے سبب آج محنت کش، ٹرانسپورٹر، تاجر اور سول سوسائٹی کے تمام تنظیمیں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں نے بوکھلاہٹ کے عالم میں ایک دفعہ پھر تاریخ دہراکرایک عدالتی فیصلے کے ذریعہ بغیر کسی وجوہات کے بلوچستان کے ٹریڈ یونینز تنظیموں پر پابندی عائد کردی ہے اور مذکورہ عدالتی فیصلے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ صوبہ بلوچستان کے دس لاکھ سے زائد محنت کش متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ اٹھارویں آئینی ترامیم کے بعد صوبہ بلوچستان کے علاوہ وفاقی سطح کے نافذ العمل لیبر قوانین IRA/2012 بشمول تینوں صوبوں کے لیبر قوانین میں ماسوائے فوج اور پولیس کے باقی تمام اداروں کے ملازمین کو انجمن ٹریڈ یونین آزادی کا حق حاصل ہے۔ اور ان صوبائی حکومتوں نے اپنے عوام و محنت کشوں کے لیے ملکی و بین الاقوامی معیار کے عین مطابق لیبر قوانین نافذ کردیے۔ مزدور رہنمائوں نے کہا کہ رجسٹرار ٹریڈ یونینز بلوچستان کے اس غیر آئینی فیصلوں کی وجہ سے بلوچستان بھر کے مزدور وں اور ان کے نمائندہ فیڈریشن اور کنفیڈریشن متحد ہوگئے ہیں ۔ آج کی پریس کانفرنس میں ہم بلوچستان کے محنت کشوں کی جانب سے حکمرانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر وفاقی اور باقی صوبوں کی طرح بلوچستان کے مزدوروں کے لیے قانون سازی کے ذریعے ان لیبر قوانین میں تبدیلی نہ لائی گئی جن کی موشگافیوں کو ہائی کورٹ بلوچستان اپنے فیصلے میں ذکر کیا ہے تو صوبے اور ملک بھر کے محنت کش لاکھوں کی تعداد میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں گے۔