اہلِ صفا

642

صفا اور حرم کی اصطلاحات سے تو ہر مسلمان بخوبی واقف ہے، حرم کا نام سنتے ہی کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی کا تصور ذہن میں آتا ہے، لیکن فیض احمد فیض اہلِ صفا کے استعارے سے معاشرے کے زیردست طبقات مراد لیتے ہیں اور ارضِ خدا کو کعبے اور حرم کا درجہ دیتے ہیں۔ اصل اہلِ صفا تو تاجدارِ کائنات ختم المرسلین سیدنا محمد رسول اللہ ؐ اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام تھے، جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی: ’’اور (اے رسولِ مکرم!) آپ اپنے قریب ترین رشتے داروں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائیے، (الشعراء: 214)‘‘، تو نبی ؐ کوہِ صفا پر چڑھے اور ندا دی: اے بنی فِہر!، اے بنی عدی!، الغرض آپ نے قریش کے تمام قبیلوں کو پکارا یہاں تک کہ وہ سب جمع ہوگئے، جو خود نہ آسکا، اُس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا، ابولہب اور دیگر قریش بھی آئے، آپ ؐنے فرمایا: بھلا بتائو تو سہی! اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس وادی کے پیچھے شہسواروں کا ایک لشکر تم پر حملہ کرنے والا ہے، تو کیا تم میری تصدیق کرو گے، سب نے کہا: جی ہاں، ہم نے آپ سے (ہمیشہ) سچ ہی سنا ہے، تو آپ ؐ نے فرمایا: میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرا رہا ہوں، ابولہب نے کہا: (العیاذ باللہ!) آپ کے لیے ہلاکت ہو، کیا اس لیے آپ نے ہمیں جمع کیا، اسی موقع پر سورۃ اللہب نازل ہوئی، (بخاری)‘‘، اس کی مزید تفصیلات کتبِ سیرت میں موجود ہیں۔ سو اُس مشکل وقت میں جاں نثارانِ مصطفی اہلِ صفا تھے۔
اُس کعبۃ اللہ میں آپ کا داخلہ بند تھا، جس کے آپ حقیقی وارث تھے اور جو آپ کے اجدادِ اعلیٰ سیدنا ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کا تعمیر کردہ تھا۔ لیکن فیض احمد فیض روئے زمین کو کعبے سے اور ہر عہد کے سرکش اور جابر صاحبانِ اقتدار کو بتوں سے تعبیر کرتے ہیں، مزدور اور پسے ہوئے طبقات کو اہلِ صَفا سے تشبیہ دے رہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ اگرچہ وقتی طور پر حرمِ اقتدار سے انہیں دھتکارا ہوا ہے، لیکن اقتدار کے حقیقی وارث وہی ہیں، اب زمینی اقتدار مزدوروں کو ملنے کا وقت آگیا ہے اور وہ ایوانِ اقتدار سے دھتکارے ہوئے نہیں ہوں گے، بلکہ حرمِ اقتدار کے مسند نشیں ہوں گے، یہ اُن کا خواب تھا جس کی تعبیر وہ اپنی زندگی میں نہ پا سکے، وہ کہتے ہیں:
جب ارض خدا کے کعبے سے، سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا مردود ِحرم، مَسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے، سب تخت گرائے جائیں گے
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں، ہم دیکھیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا، جو غائب بھی ہے حاضر بھی، جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا اَنَاالْحَقّ کا نعرہ، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں، ہم دیکھیں گے
فیض صاحب اَنَا الْحَق سے معبودِ برحق مراد نہیں لے رہے، بلکہ معاشرے کے زیردست طبقات مراد لے رہے ہیں، جو اُن کے نزدیک اقتدار کے اصل مالک ہیں، جب سوشلزم کے نعرے میں چمک تھی تو ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی نعرہ لگایا تھا: ’’اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘، مگر جب عوام کے ووٹ سے اُن کو اقتدار ملا تو انہیں اپنے بنائے ہوئے دستور کے دیباچے میں قراردادِ مقاصد کو شامل کرنا پڑا، جس کا آغاز ان کلمات سے ہوتا ہے: ’’اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے، اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا‘‘۔
اس کے بعد 2مارچ 1985 کو اُس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے صدارتی فرمان کے ذریعے دستورِ پاکستان میں آٹھویں ترمیم کی، اس کے مطابق قراردادِ مقاصد کو دیباچے کے بجائے دستورِ پاکستان کا حصہ بنا لیا گیا، صدارتی فرمان: 14کے تحت دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 2میں اُسے ضمیمے کے طور پر 2-A کے عنوان سے شامل کیا۔ اِس صدارتی فرمان کے آخر میں ضمیمہ کے مطابق کہا گیا تھا: قراردادِ مقاصد آئین پاکستان کے متن میں یعنی بنیادی قانون کے طور پر شامل سمجھی جائے گی، نیزضمیمہ میں کہا گیا: ’’قراردادِ مقاصد میں بیان کردہ اُصول اور احکام کو بذریعہ ہذا دستور کا مستقل حصہ قرار دیا جاتا ہے اور وہ بحسبہٖ مؤثر ہوں گے‘‘۔ یہاں بھی ایک چالاکی سے کام لیا گیا کہ قراردادِ مقاصد کو دستورِ پاکستان کے متن میں تو شامل کرلیا گیا، لیکن مؤثر قانون نہیں بنایا گیا، مرزا غالب نے کہا تھا:
ہیولیٰ برقِ خِرمن کا ہے، خونِ گرم دہقاں کا
مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
تاہم یہ ضمنی بات تھی، بنیادی بات یہ ہے کہ فیض صاحب نے اپنی زندگی ہی میں اپنے خوابوں کو چکنا چور ہوتے دیکھا، کمیونزم اور سوشلزم کا مرکزِ اقتدار سوویت یونین تحلیل ہوگیا، چین نے کسی عَلَانیہ قلبِ ماہیت کے بغیر اپنے نظریے سے انحراف اور تحویلِ قبلہ کرکے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف رُخ کرلیا اور اپنے آپ کو بتدریج اس میں ڈھال رہا ہے، چنانچہ آج چین دنیا کی دوسری بڑی سرمایہ دارانہ اقتصادی قوت ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ ہی ہمارے روایتی سرخے، بائیں بازو والے، پرولتاری، لہو کا رنگ سرخ ہے اور لہو کا رنگ ایک ہے، کا نعرہ لگانے والوں نے بھی تحویلِ قبلہ کر کے اپنا قبلۂ مفادات ماسکو اور بیجنگ کے بجائے واشنگٹن کو بنالیا ہے۔ پھر ان نام نہاد انقلابیوں کی بشارتیں بھی الٹ پلٹ ہونے لگیں، فیض احمد فیض نے کہا تھا:
نہ دست و ناخنِ قاتل، نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر، نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا، نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں، لہو کا سراغ
نہ صرفِ خدمتِ شاہاں، کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر، کہ بیعانۂِ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا، کہ معتبر ہوتا
کسی عَلم پہ رقم ہو کے، مشتہر ہوتا
پکارتا رہا، بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت، نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
الغرض فیض نے تو کہا تھاکہ مظلوموں کا خون ایسے کشید کرلیا گیا کہ اس عیّارانہ واردات کی کوئی علامت بھی باقی نہ رہی، نہ کوئی کھرا ملا کہ تہہ تک پہنچتے، نہ قاتل نے کوئی نشانیاں چھوڑیں کہ اُن کے ذریعے مظلوموں کے ہاتھ اُس کے گریبان تک پہنچتے، جیسا کہ کلیم عاجزنے کہا تھا:
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو، کہ کرامات کرو ہو
آج مقبوضہ کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن میں مسلمانوں کا خون کتنا ارزاں ہوا، اس کا کوئی حساب بھی نہیں، جو امن کی سوغات لٹانے آئے تھے، انہوں نے لاشوں کے انبار تحفے میں دیے، بوڑھوں، بچوں، خواتین اور کمزوروں کی سسکیاں، چیخیں اور فریادیں سن سن کر زمین بھی گونگی، بہری اور اندھی ہوچکی ہے، بستیاں ویران کر کے کھنڈرات میں تبدیل کردی گئیں، لیکن قاتل سفاک اور درندے اب بھی نجات دہندہ بن کر سامنے آتے ہیں۔
اب تازہ واردات مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کو دستوری حیثیت دینا ہے تاکہ قصہ ہی تمام ہوجائے۔ عالمی قوتیں جو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے حقِ حُرِّیتِ وطن کی ضامن تھیں، وہ نہ صرف یہ کہ غیر جانبدار ہوگئیں بلکہ ظالم اور قاتل مودی اور اس کا ہندوستان اُن کی مجبوری اور ضرورت بن گیا۔ ان قوتوں کے لیے کاروباری اور تزویراتی مفاد بے قصور مظلوموں کے خونِ ناحق، لاشوں، آہوں اور سسکیوں کا خوں بہا بن گیا۔ ہم بن مانگے ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے اور اپنے گمان کے مطابق یہ سمجھ رہے تھے کہ اب امریکا مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کر کے دم لے گا، لیکن جی سیون کانفرنس کے موقع پر ٹرمپ کی مودی سے ملاقات کا منظر دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ دوحا مذاکرات کے حوالے سے امریکا کے ساتھ ہمارا رومانس محدود وقت کے لیے اور ایک خاص مشن تک محدود ہے، اسے دیرپا اور لازوال دوستی پر محمول کرنا خود فریبی یا نرم سے نرم الفاظ میں خوش فہمی ہے۔ امریکا کے پاس ہماری طنّابیں کھینچنے کے لیے آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک ایسے ادارے موجود ہیں۔ ہمارے قرضے ہماری مجموعی قومی آمدنی یعنی جی ڈی پی سے متجاوز ہوچکے ہیں، ہم تاحال اپنے ملک کو چلانے کے لیے دوسرے ممالک کے دست نگر ہیں اور کسی کی ناراضی کے متحمل نہیں ہوسکتے، تخمینے پر مبنی ہماری سالانہ آمدنی اور اخراجات میں اب بھی بڑا گیپ موجود ہے، نیز یہ کہ محصولات میں جس اضافے کی توقع کی جارہی تھی، اس کے حصول کے اشاریے بھی منفی سمت میں ہیں۔
ہم ریلیاں نکال رہے ہیں، احتجاجی جلسے کر رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں، لیکن اُن کے دکھوں کا مداوا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اُن تک خوراک اور ضروری دوائیں پہنچانے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات کے بارے میں چھَن چھَن کر جو خبریں آرہی ہیں، وہ وہی ہیں جو بی بی سی، سی این این، الجزیرہ یا برطانیہ اور امریکا کے بعض اخبارات رپورٹ کر رہے ہیں، ہمارے پاس معلومات کے حصول کا کوئی اپنا ذریعہ نہیں ہے۔ اس دوران امریکی کانگریس یا بعض اداروں کی طرف سے جو ردِّعمل آیا ہے، وہ بھی حقوقِ انسانی کے حوالے سے ہے، اصل مسئلے پر امریکا، یورپ اور اقوامِ متحدہ کوئی پوزیشن اختیار نہیں کررہے۔ حقوقِ انسانی سے مراد طویل محاصرہ، کرفیو اور بنیادی ضرورتوں کی عدم فراہمی ہے، دنیا کی کوئی موثر قوت یہ کہنے کو تیار نہیں کہ بھارت اپنے یکطرفہ اقدام کو واپس لے اور مقبوضہ کشمیر کی سابق حیثیت بحال کرے۔ غیر سرکاری جہاد کو ہمارے ہاں ریاست اور اداروں کی سطح پر ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، ریاست ممکنہ جنگ کے موہوم خطرے کی بات تو کرتی ہے، لیکن بظاہر اس کے آثار نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے اندر تحریکِ حُرِّیت موثر انداز میں جاری وساری رہنے کے لیے بیرونی امداد ناگزیر ہوگی، سرِدست اس کے آثار نظر نہیں آرہے، سو ایک طویل جدوجہد کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ماضیِ قریب میں مسیحی اکثریتی علاقوں ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان ریفرنڈم کے ذریعے آزاد ہوئے، لیکن اُن کے پیچھے امریکا اور اہلِ مغرب کھڑے تھے، ہم کیسے کھڑے ہیں،یہ جاننے کے لیے خالد مسعود خان کے گزشتہ کالم کے آخر میں درج غزل کے اشعار پڑھ لیجیے، شاید آنکھیں کھل جائیں۔