اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی

909

یہ ایک الم ناک صورت حال ہے۔ پاکستان کے عوام مجسم سوال ہیں کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ عمران احمد خان نیازی وہ سب کچھ بلکہ اس سے زیادہ ہی کررہے ہیں بائیس برس جن باتوں پر وہ سابقہ حکمرانوں کو گالیاں دیتے رہے وہ جس روش پر پچھلی حکومتوں کو لتاڑتے تھے خود وہی کر رہے ہیں۔ حکومتی قرضے معاف کرنے پر وہ کہا کرتے تھے ’’یہ آپ کے باپ کا پیسہ ہے؟۔ یہ پاکستانی قوم کا پیسہ ہے۔ آپ کے باپ کا پیسہ ہوتا تو آپ معاف کردیتے لوگوں کو۔ حکومت کا کام ہوتا ہے مجرموں کو پکڑنا ان سے مفاہمت کرنا نہیں ہوتا‘‘۔ وہ ان وعدوں کو فراموش کرچکے ہیں ماضی میں جن کی جگالی کرتے رہتے تھے۔ عوام سے ان کی دشمنی واضح سے واضح تر ہوتی جارہی ہے۔ حاجیوں کو سبسڈی دینے کا معاملہ آیا خزانہ خالی، غریبوں کو آٹے دال چاول پر رعایت دینے کی بات کی گئی خزانہ خالی، بجلی، گیس اور پٹرول پر زرتلافی کا کہا گیا خزانہ خالی، یونیورسٹی اسکالر شپس خزانہ خالی، نئی نوکریاں خزانہ خالی، کشمیر پر جنگ خزانہ خالی لیکن ذاتی دوستوں کو اسی خالی خزانے سے 208 ارب روپے معاف کردیے گئے۔ انتہائی رازداری اور خاموشی کے ساتھ۔ اگر معاملہ نہ کھلتا تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکا تھا۔ دو کھرب روپے سے زائد، اتنی بڑی رقم معاف کرنے کی جرات تو کسی حکومت کو نہیں ہوئی۔ پاکستان میں 1971 سے لے کر 2009 تک جتنے قرضے معاف کیے گئے ہیں یہ رقم اس کے برابر تھی۔ حکومت نے اب تک عوام کو ایک روپے کی ریلیف نہیں دی بلکہ آتے ہی ان پر 700 ارب روپے کے ٹیکس لگا دیے تھے۔ ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، یہ سب کچھ دینا تو درکنار انہوں نے عوام کی زندگی جہنم بنادی ہے۔ عوام کے اعتماد کو بری طرح زائل کیا ہے۔ روز ایک نیا موڑ، نیا یوٹرن، لغو اور بے ہودہ بیانات۔ عمران نیازی نے ایک نیا طرز حکومت متعارف کرایا ہے۔ ٹی وی دیکھ کر باخبر رہنے کا۔ ان کی حکومت میں خزانے پر اتنا بڑا ڈاکا پڑ گیا اور بقول ان کے انہیں خبر ہی نہیں تھی۔ ٹی وی دیکھ کر پتا چلا۔ کیسے یقین کیا جاسکتا ہے۔ شدید تنقید کے بعد حکومت نے آرڈی ننس واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب معاملہ عدالت میں جائے گا۔ یہ پشیمان ہیں یا احمق ہیں۔ یہ ایک عظیم انکشاف ہوگا۔
اور اب ذکر اس مظلوم کا جو خود تو مرگیا لیکن ملک کے بوسیدہ نظام انصاف کا منہ چڑا گیا۔ کیمرے کے سامنے منہ چڑانے والا غریب مارا گیا لیکن کیمرے کے سامنے نازیبا حرکتیں کرنے والا چیئرمین نیب نہ صرف محفوظ بلکہ اپنے عہدے پر بھی فائز ہے۔ ایک ذہنی مریض جو اے ٹی ایم مشین توڑنے کے جرم میں پکڑا گیا۔ نیم پاگل صلاح الدین کی تشدد زدہ لاش نے لوگوں کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ ’’ایک بات پوچھوں تم نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟‘‘ صلاح الدین کو کوئی کیسے بتائے درندے کہیں سے نہیں سیکھتے۔ درندگی ان کی سرشت میں ہوتی ہے۔ وردی پہن کریہ درندے پولیس کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کٹی پھٹی ، زخموں سے نیلی لاش۔ پنجاب پولیس کے مطابق وجہ موت ہارٹ اٹیک۔ یہ ہارٹ اٹیک کی انوکھی قسم تھی جس میں ہتھیلی کا گوشت پھٹ گیا، پسلیاں ٹوٹ گئیں، کلائی کی ہڈی چور ہوگئی، بازو کے پٹھے پھٹ گئے، جسم کے نازک حصے کٹ گئے۔ کیا فرق ہے گوانتانامو، بھارتی درندوں اور پاکستانی پولیس کے تشدد میں۔ اس مہینے میں جب صدیوں پر محیط پیاس اور پانی کا تعلق خون رلاتا ہے، وہ پانی مانگتا رہا لیکن اسے پانی کی ایک بوند نہیں دی گئی۔ باپ کے کاندھوں پر سب سے بڑا بوجھ، دنیا کا سب سے بڑا بوجھ، بیٹے کا جنازہ، اس کرب کو مجسم دیکھنا ہے تو صلاح الدین کے باپ کا لاش وصول کرتے وقت بیٹے کے لاشے پر بلک بلک کر پھوٹ پھوٹ کر رونا دیکھ لیجیے۔ اس واقعے کو ایک ہفتہ ہونے کو آرہا ہے لیکن اس جنگل میں جسے پاکستان کہا جاتا ہے حکومت سے لے کر عدلیہ تک کسی کو فرصت ہے نہ دماغ کہ وہ اس قتل کا نوٹس لے۔
کئی سال پہلے رینجرز اہلکاروں نے کراچی میں ایک نوجوان فیروز کو سرعام قتل کیا۔ اس کے قتل کی ویڈیو دنیا نے دیکھی۔ 19جنوری 2019 کو محکمہ انسداد دہشت گردی نے ساہیوال کی ایک شاہراہ پر محمد خلیل، ان کی زوجہ نبیلہ، بیٹی 13سالہ اریبہ اور ڈرائیور ذیشان کو سرعام گو لیاں مار کر ہلاک کردیا۔ عمران خان نے اس موقع پر خوب وعدے کیے تھے انصاف دلانے کے۔ رائو انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کے قتل نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا بعدازاں انکشاف ہوا کہ رائو انوار چار سو سے زائد لوگوں کو قتل کرچکا ہے۔ عذیر بلوچ کے بارے میں بھی بڑی خوف ناک باتیں سامنے آئی تھیں۔ بتدریج سب کچھ فراموش کردیا گیا۔ وہ تمام درندے جو اس قتل وغارت میں ملوث تھے آج شاداں وفرحاں زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی میں اتنی جرات نہیں کہ ان کی طرف دیکھ بھی سکے کیونکہ قاتل عالی مرتبت اداروں کے پروردہ، چہیتے اور ان کا حصہ ہیں۔ کسی کو احساس نہیں کہ ہم خدا کے سامنے ان لاشوں کے لیے جواب دہ ہیں۔ ہماری حکومتیں اور نظام عدل قاتلوں میں سب سے بڑے قاتل اور مجرموں میں سب سے بڑے مجرم ہیں۔ وہ ظالموں کے وکیل اور ان کے شریک ہیں۔
عوام کو قتل کرنے کے لیے اگر پولیس اور دیگر اداروں کے قاتل دستے ہیں تو وہ جو حکومت مخالف ہیں ان سے حسن وخوبی سے عہدہ برآہونے کے لیے عدالتیں ہیں۔ ہماری عدالتیں انصاف کا المیہ اور عدل کی تخریب ہیں۔ ان کا انصاف دیکھیں تو لگتا ہے انجام نزدیک ہے۔ ہمارا وقت آپہنچا ہے۔ رانا ثنا اللہ کے معاملے میں ہماری واٹس اپ عدالتیںعدل کے وقار کو جس طرح خاک میں ملارہی ہیں وہ بہت پست اور حقیر ہے۔ ہماری عدالتوں کے نزدیک حکومتی گروہ عظیم اور عزیز ہے جب کہ اپوزیشن وہ وحشی گروہ ہے جسے پابند سلاسل رکھ کر تہذیب سکھانے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن سے انہوں نے انسان ہونے کا حق چھین لیا ہے۔ بے ہودہ اور جاہلانہ الزامات، چنیدہ جج اور حکومتی خواہش یہ وہ ماموریت ہے جس کی بنیاد پر فیصلے سنائے جارہے ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز کے ججوں کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ ایسے جج لگائے جارہے ہیں جو سورج کو بھی تاریک کردیں۔
جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے آنے اور ان کے اس اعتراف کے بعد کہ ہاں یہ ویڈیو صحیح ہے میں نے یہ باتیں کی ہیں۔ مجھے بلیک میل کرکے فیصلہ لکھوایا گیا ہے۔ نواز شریف کی سزا ایک ظلم اور قانونی اغوا کی حیثیت اختیار کرگئی ہے لیکن اس کھلے اعتراف اور ویڈیوکے بعد عدلت عظمیٰ کے ججوں نے جو موقف اختیار کیا وہ حیران کن ہے۔ جج ارشد ملک کے اعتراف کے باوجودعدالت بضد ہے کہ ویڈیو فرانزک کی جائے۔ اگر اس مرحلے سے گزر جائیں تو دوسری شرط یہ کہ ویڈیو بنانے والے پروفیشنل ہوں۔ یہ شرائط بھی پوری کردی جائیں تو نواز شریف کو قید میں جھونکے رکھنے کے لیے اگلی شرط یہ لگائی گئی ہے کہ جس نے ویڈیو بنائی ہے وہ عدالت میں پیش ہو اور عدالت کو خود ویڈیو پیش کرے۔ ان شرائط کی موجودگی میں نواز شریف کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ عدلت عظمیٰ کی ان پابندیوں کے بعد ہائی کورٹ کیا فیصلہ دے گی سب کو پتا ہے۔ ہماری عدالتیں عدل نہیں کررہی ہیں۔ عدل کی ہڈیوں کو بھی پیس رہی ہیں۔ عدالتیں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ عدالتوں کا یہ رویہ ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچارہا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن اگر عدلیہ جیسا ادارہ یوں بے تو قیر فیصلے کرے، اس طرح حکومتوں کے ہاتھوں میں کھیلے یہ بہت شرمناک ہے۔
زور کے سامنے کمزور، تو کمزور پہ زور
عادل شہر تیرے عدل کے معیار پہ تھو
جو فقط اپنے ہی لوگوں کا گلا کاٹتی ہو
ایسی تلوار مع صاحب تلوار پہ تھو