کل پاکستان اجتماع عام جماعت اسلامی پاکستان(باب یازدہم)

418

امیر جماعت کی پریس کانفرنس
امیر جماعت نے اپنی اختتامی تقریر کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اس مسلمان ملک کو حکمرانوں کی بداعمالیوں کے سبب تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچالے۔ مصلح افراد کی حمایت و حفاظت فرما اور مفسدوں کو نیک ہدایت دے‘ تاکہ اپنی قوم کی دنیا اور عاقبت کو خرابی سے محفوظ کرسکیں۔
اخباری نمائندوں کے سوالات سے پہلے امیر جماعت نے مختصر تقریر میں کہا کہ جماعت اسلامی نے اس قوم کے مورال کو بحال کرنے میں جو کام کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم نے شرافت سے غنڈہ گردی کا مقابلہ کیاہے اور اسے شکست دی ہے۔ کانفرنس کے شرکا میں پورے ملک کے طول و عرض سے آنے والے شہری‘ دیہاتی‘ ان پڑھ‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ صاحب حیثیت لوگ اور غریب اور مفلس سب قسم کے لوگ اور ہر معاشرے کے نمائندے موجود تھے۔ ہماری جماعت کی تربیت کے نتیجے میں ان میں جو صبر و ضبط اور نظم پیدا ہوچکا ہے‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم پر اچانک حملہ ہوا‘ لیکن جماعت نے کتنے صبر و تحمل سے اور نظم و ضبط کے ساتھ اس حملے کا مقابلہ کیا اور کس طرح لوگ اپنی اپنی جگہ اس صورت حال سے نمٹتے رہے اور باقی پورا مجمع صبر و سکون سے بیٹھا تقریر سنتا رہا۔
اس مختصر تقریر کے بعد مولانا مودودیؒ نے مختلف سوالات کے جوابات دیے (۱۵) جو وزیر داخلہ حبیب اللہ‘ چودھری خلیق الزماں کے حالیہ بیانات اور جماعت کی کردار کشی کے لیے اوقاف کے ملازم خطیبوں اور ایسے علماء کے ذریعے‘ جو برسوں سے جماعت کو غلیظ گالیوں سے نوازتے آئے ہیں‘ جماعت کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کے بارے میں تھے۔
مولانا مودودیؒ نے کہا: ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے خلاف کس نے سازش کی ہے اور کس پارٹی کے غنڈوں نے اس میں حصہ لیاہے‘ لیکن اس وقت ہم اس مرحلے پر ان کے نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارے ارکان اسمبلی اس معاملے کو اسمبلی میں اٹھائیں۔ جماعت کے لوگوں پر واپسی کے بعد اپنے اضلاع پر امکانی سختیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ:’’ جو لوگ غنڈوں کو لاکر شرفاء پر حملے کراسکتے ہیں‘ ان سے کچھ بعید نہیں‘‘۔
جہاد کشمیر کے بارے میں ان کے مبینہ فتوے کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ:’’ ممدوٹ صاحب وہ اصل فتویٰ پیش کریں وہ جعلی فتویٰ نہیں جو انہوں نے اخبارات میں شائع کرایا تھا‘ تاکہ مجھے عوام میں غیر مقبول اور بدنام کیا جاسکے‘‘۔ انہوں نے فتوے کے الزام کا سارا واقعاتی پس منظر بیان کردیا‘ جس کے مطابق آزاد کشمیر گورنمنٹ کا ایک پبلسٹی آفیسر نبی بخش نظامانی مئی ۱۹۴۸ء میں جماعت اسلامی کے پشاور کے اجتماع میں ان سے علیحدگی میں ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے حکومت پاکستان کی اس ڈپلومیسی پر نکتہ چینی کی تھی جس کے تحت وہ دنیا بھر سے کہہ رہے تھے کہ ہم نہیں لڑرہے‘ جبکہ اندر اندر لڑ رہے تھے۔ میں نے کہا تھا کہ حکومت کھلم کھلا جہاد کا اعلان کرے ہم اگلی صفوں میں جانے کو تیار ہیں۔ منافقت کی سیاست یعنی ڈپلومیسی نہ کریں۔ دوسرے دن میں نے اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ مولانا مودودیؒ نے جہاد کشمیر کو حرام قرار دے دیا ہے۔ میں نے اس کی بھرپور تردید کی تو میرا بیان کہیں نہیں شائع ہونے دیا گیا۔ ہمارے اخبار’ تسنیم ‘کو بھی بند کردیا گیا‘ میں خود ریڈیو پاکستان پر آکر اس کی تردید کرنا چاہتا تھا‘ لیکن مجھے یہ موقع دینے سے صاف انکار کردیا گیا۔ میں تردید اس لیے الم نشرح کرنا چاہتا تھا کہ اس جھوٹے خود ساختہ بیان سے جو مجھ سے منسوب کیا گیا تھا‘ کہیں کشمیر میں لڑنے والے مجاہدین اور فوج کی ہمت پست نہ ہوجائے۔ لیکن اس وقت کے حکمرانوں نے ہماری دشمنی اور اسلامی دستور کی جدوجہد کی مخالفت میں کشمیر کے کاز کو نقصان پہنچانا گوارا کرلیا‘ لیکن میرے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے خاتمے کو گوارا نہ کیا۔
آئندہ انتخابات کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ: ہماری انتہائی کوشش ہے کہ اگلا الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست ہو۔ ہم نے اس کے لیے مہم چلانے کابھی فیصلہ کرلیا ہے۔ خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ: ہمیں دنیا بھر سے دوستانہ روابط قائم کرنے چاہئیں۔ عالم اسلام کو نظر انداز کرکے ہم نے مغربی ملکوں سے اپنا ناتا جوڑا ہوا ہے جو غلط ہے۔
جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل میاں طفیل محمد کو افتتاحی اجلاس میں جماعت اسلامی کی روداد یکم؍دسمبر ۱۹۵۵ء تا۳۰؍ ستمبر۱۹۶۳ء پیش کرنا تھی‘ لیکن غنڈوں کے حملوں اور لائوڈ اسپیکر کی ممانعت کی وجہ سے اسے عام اجلاس میں پیش نہ کیا جاسکا۔ (۱۶) یہ جماعت کا چوتھا اجتماع عام تھا جو آٹھ سال بعد منعقد ہورہا تھا۔اس سے پہلے ایک لاہور میں ۶ تا ۸؍مئی ۱۹۴۹ء کو‘ دوسرا کراچی میں ۱۰ تا ۱۳؍ نومبر۱۹۵۱ء کو اور تیسرا بھی ۱۹ تا ۲۳؍ نومبر۱۹۵۵ء کو کراچی میں منعقد ہوا تھا۔اگرچہ ۱۷ تا ۲۱؍ فروری۱۹۵۷ء کو ماچھی گوٹھ تحصیل صادق آباد رحیم یار خان میں جماعت کے ارکان کا ایک اجتماع ہوا تھا‘ لیکن یہ عام اجلاس نہیں تھا اور صرف ارکان جماعت کی تنظیمی اور دستوری مسائل اور پروگرام کے بارے میں فیصلے کرنے کے لیے منعقد ہوا تھا۔
(جاری ہے)