ختم نبوت پر اجماعِ امت

1970

دور نبوی سے لے کرتا امروز امت کے درمیان اس موضوع پر کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپؐ کی امت آخری امت ہے۔علامہ اقبالؒ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد عالیہ ہی کو اپنے فارسی کلام میں یوں منظوم کیا ہے:
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد
رونق از ما محفلِ ایام را
اُو رُسل را ختم و ما اقوام را
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیسیوں احادیث اسی موضوع پر ہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ یہ سب احادیث سورۂ احزاب کی آیت نمبر40 جس میں آپؐ کو خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے، کی تشریح کرتی ہیں۔ ہم چند احادیث یہاں نقل کرتے ہیں۔
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ۔ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ، وَاِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائُ۔ (بخاری،کتاب المناقب باب ماذکرہ عن بنی اسرائیل)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیا کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاجاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفا ہوں گے۔
حضرت ابیّ بن کعب کی روایت:
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبِیَائِ بِسِتٍّ، اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّطَھُوْراً وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے چھ باتوں میں تمام انبیا پر فضیلت دی گئی ہے۔ (1)مجھے جامع اور مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی ہے، (2) مجھے رعب کے ذریعے سے نصرت بخشی گئی ہے، (3)میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گئے ہیں، (4) میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنا دیا گیا ہے اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی (یعنی میری شریعت میں نماز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملے تو میری شریعت میں تیمم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے اور غسل کی حاجت بھی)، (5)مجھے تمام دنیا کے لیے رسول بنایا گیا ہے اور (5) میرے اوپر انبیا کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔
قَال رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ۔ (ترمذی، کتاب الرؤیا، باب ذہاب النبوۃ۔ مسند احمد، مرویات، انس بن مالک)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِیْ الَّذِیْ یُمْحٰی بِیَ الْکُفْرُ، وَاَنَاالْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُالنَّاسُ عَلٰی عَقِبِیْ، وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ۔ (بخاری ومسلم، کتاب الفضائل، باب اسماء النبی۔ ترمذی، کتاب الآداب، باب اسماء النبی۔ مؤطا، کتاب اسماء النبی، المستدرک للحاکم، کتاب التاریخ، باب اسماء النبی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر محو کیا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے (یعنی میرے بعد اب بس قیامت ہی آنی ہے) اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیًّا اِلَّاحَذَّرَ اُمَّتَہٗ الدَّجَّالَ وَاَنَا آخِرُالْاَنْبِیَائِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ وَھُوَ خَارِجٌ فِیْکُمْ لَامَحَالَۃَ۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الدجال)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو دجال کے خروج سے نہ ڈرایا ہو (مگر ان کے زمانے میں وہ نہ آیا) اب میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ لامحالہ اب اس کو تمھارے اندر ہی نکلنا ہے۔
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْکَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ۔ (ترمذی، کتاب المناقب)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطابؓ ہوتے۔
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ: اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسیٰ، اِلَّا اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔ (بخاری ومسلم، کتاب فضائل الصحابہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: میرے ساتھ تمھاری نسبت وہی ہے جو موسیٰ ؑکے ساتھ ہارونؑ کی تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
ان احادیث میں اللہ کے فضل ورحمت سے ہر دور میں ائمہ کرام اور مجتہدین امت نے یکساں موقف اپنایا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر نقب لگانے والے تمام مجرمین بالاتفاق کفار ہیں۔ وہ دنیا میں بھی عبرت کا نشان بنے اور آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس موضوع پر اختصار کے ساتھ اہلِ علم کی آرا ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
امام ابوحنیفہؒ (80-150ھ) کے زمانے میں ایک آدمی نے نبوت کا دعوی ٰ کیا اور کہا: ’’مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں‘‘۔ اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا کہ ’’جوشخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ۔‘‘ (مناقب الامام الاعظم، ابی حنیفہ لابن حنبل المکی، ج1،ص161)۔
علامہ ابن جریر لکھتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی اورا س پر مہر لگا دی گئی۔ اب قیامت تک کے لیے یہ دروازہ بند ہے۔ (تفسیرابن جریر، ج22،ص12)
امام طحاوی اپنی کتاب عقیدہ سلفیہ میں اور علامہ ابن حزم اپنی تفسیر المعلّٰی میں فرماتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ہیں آپؐ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں۔
علامہ زمخشریؒ (467-538ھ) لکھتے ہیں: ’’جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی دوبارہ آمد کو دلیل بناتے ہیں انھیں جان لینا چاہیے کہ عیسیٰؑ آپؐ سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے، جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدیہ کے پیرو اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ایک فرد کے طور پر آئیں گے۔ (تفسیرکشاف ج2،ص215)۔ یہی بات امام بیضاویؒ متوفی685ھ نے لکھی ہے۔ (بحوالہ انوارالتنزیل،ج4،ص164)
علامہ سیوطیؒ متوفی911ھ لکھتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد کوئی نبی نہیں اور عیسیٰؑ جب نازل ہوں گے تو آپؐ کی شریعت کے مطابق ہی عمل کریں گے۔ (جلالین، ص768)
علامہ آلوسیؒ متوفی1270ھ نے اس موضوع پر تفصیلاً لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا مدعی بالاتفاق کافر اور واجب القتل ہے۔ (روح المعانی، ج22، ص32، 38،39)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا خود اس امت کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ جس طرح آپ انبیاء کے خاتم ہیں، اسی طرح یہ امت جملہ اممِ عالم کی خاتم ہے۔
رونق از ما محفل ایام را
او رسل را ختم وما اقوام را
لا نبیّ بعدی ز احسانِ خدا ست
پردۂ ناموسِ دینِ مصطفیٰ است
ان تمام دلائل کی روشنی میں آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ فتنۂ قادیانیت کی حقیقت کیا ہے۔ جو مسلمان اہلِ اقتدار اور دانش ور حضرات مغربی طاقتوں سے مرعوب ہوکر قادیانیت کو تحفظ دینا چاہتے ہیں انھیں سوچنا چاہیے کہ کل روزِ قیامت اللہ کو کیا جواب دیں گے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے منہ دکھائیں گے۔ قادیانی دستورِ پاکستان کے مطابق بھی غیرمسلم اقلیت قرار دیے گئے ہیں۔ انھیں ان کے بنیادی حقوق تو حاصل ہیں، مگر ایک جانب ختم نبوت کے پاکیزہ محل
میں نقب اور دوسری طرف مسلمان ہونے کا دعویٰ ایک بہت بڑی جسارت ہے جسے کوئی سچا مسلمان برداشت نہیں کرسکتا۔ مولانا مودودیؒ کا یہ اعزاز ہے کہ مسئلہ ختم نبوت پر موثر کتاب لکھنے پر انھیں فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی، مگر مولانا نے رحم کی اپیل کی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ فرمایا کہ ناموس رسالت پر جان قربان کرنے سے بڑا اعزازاور کیا ہوسکتا ہے۔