شہادت امام حسین ؓ

251

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

شہادت امام حسینؓ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے، جس کو نہ صرف اسلامی تاریخ میں بلکہ دنیا کی تاریخ میں بھی اہم مقام حاصل رہا۔ یہ شہادت کیوں پیش کی گئی؟ اس کے اسباب کیا تھے؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحاق کا دعوی رکھتے تھے۔ تاریخ کے بغور مطالعے سے جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہورہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور، اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اگرچہ اس کے نتائج ابھی سامنے نہیں آئے تھے لیکن ایک صاحب بصیرت انسان کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ اسلامی ریاست کس کروٹ تبدیل ہو رہی ہے۔ اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر وہ مڑ رہی ہے وہ آخر کار اسے کہاں لے جائے گی۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام نے دیکھا اور صحیح رخ پر ایک بار پھر لانے کی اپنی ساری سعی وجہد کر ڈالی یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا۔ اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے عملی رویے سے بھی اس عقیدے اور یقین کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے کہ ملک اللہ کا ہے، باشندے اللہ کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں اللہ کے سامنے جوابدے ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں اور رعیت اس کی غلام نہیں لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا اس میں اللہ کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی تھا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہ کا رہا ہے۔ یعنی ملک بادشاہ کا، رعیت کی جان، مال، آبرو ہر چیز کا مالک بادشاہ ہے۔ اللہ کا نظام اگر عائد ہوگا تو عوام پر بادشاہ اس سے مستثنی ہے۔ اسلامی ریاست کی سنگ بنیاد یہ تھی کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ مرضی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کر دیں۔ بیعت حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کوئی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہوں۔ جب تک کسی آدمی کو بیعت حاصل نہ ہو وہ اقتدار میں نہ آئے اور جب سارے لوگوں کا اعتبار اس سے اٹھ جائے تو اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک اسی قاعدے سے برسر اقتدار آیا۔ لیکن یزید کی ولی عہدی نے اس قاعدے کو الٹ دیا۔ اس سے خاندان کی موروثی بادشاہتوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کی انتخابی خلافت کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔
اب حکمران طاقت سے برسراقتدار آنے لگے، طاقت اور اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اسی جبری بیعت کو کالعدم قرار دیے جانے پر خلیفہ منصور کے زمانے میں امام مالک کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ان کے ہاتھ شانوں سے اکھاڑ دیے گئے۔ یہ ہے وہ ملوکیت اور خلافت کا فرق جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بہت سے اہم نکتوں میں سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ خلافت میں حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے لیا جائے جن کے علم تقوی اور اصابت رائے پر لوگوں کو اعتماد ہو لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شورائی دور کا اختتام ہوگیا اور بادشاہ اپنی مرضی سے فیصلے کرنے لگے۔
کسی تاریخی واقعے کی حقیقت اور اس کی اساس ہمیں تاریخ ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ لہذا تاریخ کے بارے میں جستجو صرف فلسفیانہ اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی بڑی زبردست عملی اہمیت ہے۔ اس لیے کہ انسان کی ساری سعی وجہد کا مقصد صرف یہ نہیں کے وہ اپنے ’’کیوں‘‘ کا جواب حاصل کرلے بلکہ وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ کون سا طریقہ اور راستہ ایسا ہے جو اس کو زوال سے بچا سکے اور عروج کی طرف لے جائے۔ انسان کی ساری تگ و دو کا مقصد صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ کل کیا تھا۔ کیوں تھا اور کیسے اس مقام تک پہنچا بلکہ کسی چیز کا تجسس انسان کے اندر اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کل کے گزرے ہوئے لمحات میں ان کمیوں اور غلطیوں کو علیحدہ کردے جو اس کو ناکامی کی طرف لے جانے والی تھیں اور ان کی جگہیں ان چیزوں کو متبادل بنا دے جو اس کو آج کامیابی سے ہمکنار کرنے کا ذریعہ بننے والی ہیں۔ جس تہذیب اور قوم نے کسی زمانے میں عروج کی منزلیں طے کی تھیں وہ پچھلی چند صدیوں میں زوال کا شکار ہوگئیں۔ تمام سلطنتیں چھین لی گئیں یا یہ کہیں کہ اس کے حکمراں اس لائق نہیں رہے کہ ان سلطنتوں کے نظام کو چلا سکیں، ایسے میں اللہ نے اپنی دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے دوسروں کو اٹھا کھڑا کیا۔ گو کہ وہ اسلامی، اخلاقی روحانی بنیادوں پر کمزور صحیح لیکن ان میں یہ طاقت ٹھہری کہ دنیا کے نظام کو چلا سکیں اور بر قرار رکھ سکیں۔ آج مسلمانوں کے پاس لاکھوں کڑوڑوں ڈالر ہیں، بے شمار انسانی وسائل ہیں۔ دنیا کے بہترین خطے ہیں، پھر یہ لوگ دنیا کی اہم شاہراہوں اور گزر گاہوں پر واقع ہیں، ان سب کے باوجود پوری دنیا میں بے وزن ہیں۔ یہ بات قابل غور ہی نہیں توجہ طلب بھی ہے۔ تاریخ کی یہ داستان ہمارے لیے صرف علمی گفتگو اور فلسفیانہ کاوش کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ یہ دلچسپی ہمیں اس لیے بھی ہونی چاہیے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آیا ہمارے مسیحا جو مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں اور جو ہماری قوموں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ان کے ہاتھوں کیا یہ امت مسلمہ اور یہ دنیا انسانیت عروج کی منزل طے کر سکے گی۔ کیا وہ ٹیکنالوجی اور سائنس جس کو ہم لاکھوں کڑوڑوں ڈالر دے کر حاصل کر رہے ہیں اس سے ہماری قومیں ترقی کی منزل طے کر لیں گی؟ کیا معاشی ترقی کے ان پنج سالہ منصوبوں کے ذریعے انسانیت کو اطمینان و سکون حاصل ہو سکے گا۔ ان سارے نسخوں اور مسائل کے حل کی فی الواقع حقیقت کیا ہے؟ چنانچہ اس سوال کی اہمیت صرف علمی اور فلسفیانہ ہی نہیں، بلکہ عملی بھی ہے۔ کیونکہ اس سے ہمارا نہ صرف ماضی یا حال مستقبل بھی وابستہ ہے۔