محرم کا پہلا عشرہ

304

 

عبدالحفیظ امیرپوری

تمام انبیا علیہم السلام کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں ’’ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب‘‘ میں ہر عبادت کا ثواب دیگر دنوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں اگر کوئی گناہ کرے، تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے۔ (معارف القرآن)
امام جصاصؒ احکام القران میں فرماتے ہیں:
’’ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے، اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچالے، تو سال کے باقی مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے‘‘۔ (معارف احکام القرآن)
علامہ ابن رجبؒ فرماتے ہیں:
’’ہمارے اسلاف تین عشروں کی بہت عظمت ولحاظ کرتے تھے۔ ایک رمضان المبارک کا آخری عشرہ، دوسرا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور تیسرا محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے موسی ؑ کے تیس دن کے بعد چالیس دن کی تکمیل کے لیے جن دس دنوں کا اضافہ کیا تھا، وہ یہی محرم الحرام کے دس دن تھے اور موسی ؑ کو دس محرم الحرام کے دن باری تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ رسول اللہؐ کا محرم الحرام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمانا، اس کے شرف اور خصوصی فضیلت پر دالّ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف فرماتا ہے‘‘۔ (لطائف المعارف)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
’’قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہؐ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، تا آنکہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے، (تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی) اور رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: (اب) جس کا جی چاہے عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
’’نبی کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا، آپؐ نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک اور اچھا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن یعنی فرعون سے نجات دی تھی، اسی لیے موسی ؑ نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: پھر ہم موسیٰ سے تمہاری بنسبت زیادہ قریب ہیں اور اس کے تم سے زیادہ مستحق ہیں، چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا‘‘۔ (بخاری، مسلم)
رسول اللہؐ سے عاشورہ کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: عاشورہ کا روزہ، گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم، ابوداؤد)
فقہا کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور صرف عاشورہ کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔ (شامی،نصب الرایہ)
البتہ مولانا محمد منظور نعمانیؒ فرماتے ہیں:
ہمارے زمانے میں چونکہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشورہ کا روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور مشابہت کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔