یوم حجاب اور یادگار کردار!

513

حافظ محمد ادریس
imislami1979@gmail.com

اسلامی تعلیمات میں پوری انسانیت کے لیے خیروبھلائی ہے۔ ہمارے دینی شعائر میں شرفِ انسانیت کا مکمل نمونہ نظرآتا ہے۔ 2004ء میں مسلم رہنماؤں کی ایک عالمی کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ حجاب پر غیرمسلم دنیا میں لگنے والی پابندیوں کے خلاف پرامن جدوجہد کی جائے اور 4ستمبر کو عالمی سطح پر یومِ حجاب کے طور پر منایا جائے۔ دین اسلام میں شرم و حیا بہت بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ جس شخص کے اندر شرم و حیا نہ ہو ، اس سے کسی خیر کی توقع عبث ہے۔ الحمدللہ امت مسلمہ میں خواتین قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق حجاب اور پردے کا اہتمام کرتی ہیں۔ اگرچہ عمومی زوال اور انحطاط نے اخلاقیات کو بری طرح متاثر کیا ہے، مگر اب بھی دنیا بھر میں 4 ستمبر کو یوم حجاب کے طور پر منایا جانا باعث اطمینان ہے۔ حجاب مسلم خاتون کی پہچان، عزت اور حفاظت ہے۔ یہ قرآن و سنت کا حکم ہے۔ ہر با حیا خاتون اس کا اہتمام کرتی ہے۔ بے خدا تہذیب کے متوالے خود کو جتنا روشن خیال اور ترقی پسند کہہ لیں، حقیقت میں وہ بے حیائی ، بے غیرتی اور بے رحمی کی بدترین مثالیں پیش کرتے ہیں۔
غیر مسلم دنیا میں بھی بلاشبہ کچھ لوگ رواداری اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر انتہا پسند عناصر ہمیشہ بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ شہیدۂ حجاب مروہ الشربینی مغرب کے انتہا پسندانہ رجحانات اور مسلمانوں کی مظلومیت کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ یہ با حیا خاتون مصر کے شہر سکندریہ میں ایک دیندار گھرانے میں 7؍ ستمبر1977ء کو پیدا ہوئیں۔ شادی کے بعد اپنے خاوند کے ساتھ جرمنی چلی گئیں۔ ان کے میاںعلوی علی عکاظ اپنی اہلیہ اور معصوم بچے مصطفی کے ساتھ جرمنی کے شہر ڈریسڈن (Dresden)میں مقیم تھے۔ مروہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں ، جنھوں نے فارمیسی میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔
روس سے جرمنی میں آکر آباد ہونے والے ایک نسل پرست ، انتہا پسند اور خونخوار درندے الیکس وینز (Alex Wiens) نے انھیں سرِ بازار حجاب میں دیکھا تو انھیں گالیاں دیں۔ لوگوں نے اسے منع کیا تو ان سب کو بھی روسی اور جرمن زبان میں گالیاں دینے لگا۔ مروہ اور ان کے خاوند نے یہ معاملہ عدالت میں اٹھایا۔ مروہ سے عدالت میں پوچھا گیا تو اس نے پورا واقعہ بیان کر دیا۔ اس موقع پر یعنی یکم جولائی 2009ء کو عدالت کے اندر دورانِ سماعت اس بدبخت نسل پرست نے اس بے گناہ خاتون پر چاقو سے حملہ کر دیا۔ جب ان کے میاں دفاع کے لیے آگے بڑھے تو ان کے پیٹ میں بھی پے درپے وار کرکے ان کو زخمی کر دیا۔ اس دوران جج نے خطرے کی گھنٹی بجائی، گھنٹی کی آواز پر پولیس اندر آئی، تو پولیس مین نے فائر کیا جو مجرم کو لگنے کے بجائے علوی علی کو جالگا۔ مروہ تو موقع پر شہید ہوگئیں اور ان کے خاوند گولی اور خنجر دونوں سے شدید زخمی ہوگئے۔
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ان مظلومین کا معصوم بچہ مصطفی بھی اس وقت موقع پر موجود تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر کس قدر خوف زدہ ہوا، اس کا تصور ہر شخص بخوبی کرسکتا ہے۔ پولیس نے حملہ آور کو پکڑ لیا ۔ اس کے خلاف قتل اور اقدامِ قتل کا کیس چلا، جس کے دوران یہ ثابت ہوگیا کہ اس پر لگائی گئی فردِ جرم درست ہے۔ عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی۔ اتنا بڑا ظلم ہوا تو اس پر جرمن حکومت نے سرکاری سطح پر کوئی بیان جاری نہ کیا۔ جب مسلمان ملکوں بالخصوص مصر میں شدید احتجاج ہوا اور جرمن سفارت خانوں کے باہر ہر مسلمان ملک میں مظاہرے ہوئے تو نو دن بعد جرمن حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر اس واقعہ کی مذمت کی گئی۔ یہ ہے مغربی معاشرہ جو آزادیٔ اظہار رائے اور بنیادی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔
31سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرنے والی یہ بنتِ اسلام بلاشبہ ہر مسلمان فرد اور گھرانے کے لیے بہترین مثال ہے۔ اللہ اس کے درجات بلند فرمائے اور اس کے معصوم بچے کو اپنے حفظ و امان میں ،اچھا مسلمان اور اپنی والدہ کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ مسلم خواتین عالمی سطح پر 4ستمبر کو یوم حجاب مناتی ہیں۔ بلاشبہ حجاب مسلمان عورت کی پہچان بھی ہے اور افتخار بھی۔ مغربی دنیا کے بیشتر ممالک میں حجاب پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مسلمان خواتین اور معاشرے اس ظلم و ناانصافی کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کرتے ہیںتو بعض ممالک میں ان کو ریلیف مل جاتا ہے، جبکہ اکثر ممالک کی عدالتیں ان کا یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ مسلمان خواتین کو پردے کا حکم دیں۔ ’’اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکالیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔‘‘ (الاحزاب 59:33) حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’الحیاء من الایمان‘‘ (متفق علیہ) یعنی حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آنحضورؐ نے فرمایا: ’’الحیاء شطر الایمان‘‘ یعنی حیا نصف ایمان ہے۔
مسلم معاشروں میں مختلف سروے ہوئے ہیں ۔ ان کے مطابق خواتین نے بتایا کہ جو باپردہ ہوتی ہیں، ان سے راستوں میں چھیڑ خانی کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں، جبکہ بے پردہ خواتین کو دیکھ کر اوباش قسم کے نوجوان اپنی خباثت پر اتر آتے ہیں۔ ایک خاتون جب بے پردہ ہوتی ہے تو شیطان بہت خوش ہوتا ہے۔ جنت میں حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ سے جب غلطی ہوئی اور شیطان کے ورغلانے کے نتیجے میں انھوں نے وہ پھل کھالیا، جس سے ان کو منع کیا گیا تھا تو ان کے لباس گر گئے۔ پھر انھوں نے جنت کے بڑے پتوں والے درختوں کے پتوں سے اپنے ستر ڈھانپے۔ گویا شیطان روز اول سے اس خباثت میں لگا ہوا ہے کہ حیا اور پردہ اٹھالیا جائے۔ فحاشی و عریانی شیطان کا سب سے بڑا اسلحہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اے اولادِ آدم ؑ، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھاے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں۔ اے بنی آدمؑ، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمھارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔ وہ اور اس کے ساتھی تمھیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیاطین کو ہم نے ان لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان سے کہو، اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔ کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں؟ اے نبیؐ، ان سے کہو، میرے رب نے توراستی و انصاف کا حکم دیا ہے، اور اس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھ کر۔ جس طرح اس نے تمھیں (پہلے) پیدا کیا ہے۔ اسی طرح تم پھر پیدا کیے جائو گے۔‘‘(الاعراف7:26-27)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم پردہ اور حیاء ہے اور شیطان کا منصوبہ بے حیائی اور بے پردگی ہے۔ پس ہر مسلمان مرد اور عورت کو اللہ کے ان احکام کی روشنی میں اپنی زندگی کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور اسی کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ مسلمان معاشرے اور ریاست کی بھی ایک ذمہ داری ہے کہ وہ شرم و حیا کا ماحول پیدا کرے، فحاشی اور بے حیائی ، عریانی اور بے پردگی کے راستے مسدود کرے۔ پاکستان کا آئین بھی اہل وطن کو اسلامی احکام کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ماحول بنانا کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ ہم ’’یوم حجاب‘‘ پر مسلم خواتین کی کاوش کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ اللہ ان کو بہترین اجر سے نوازے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا ، جتنا کہ دبا دیں گے