حیا ہی سے زینت ہے

1616

قدسیہ ملک
شعبہ ابلاغ عامہ،جامعہ کراچی
کتنی بے حیائی کے کام ہورہے ہیں معاشرے میں،توبہ توبہ کتنی بے حیاہو،حیاء تو اسے چھوکربھی نہیں گزری،حیاء ہے تم میں۔۔۔اور نہ جانے کیا کیا۔ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اس لفظ’’حیا‘‘سے واقف ہیں۔لیکن کیا کبھی ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دراصل حیاسے کیا مراد ہے؟میرے اور آپکے ذہن میں حیا سے متعلق بہت سی تعریفیں ہونگی لیکن بہترین تعریف امام مو دودی کی کتاب “پردہ” میں موجود ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ”اسلام کی اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی امر منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اورخدا کے سامنے محسوس کرتا ہے (پردہ،ابوالاعلی مودودی)۔ ایک اور جگہ امام مودودی اپنی معرکۃ الآرا تصنیف پردہ میں لکھتے ہیں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ ناجائز صنفی تعلقات کو روکنے کے لیے عورتوں اورمردوں کے درمیان حجابات حائل کرنا، اور معاشرت میں اْن کے آزادانہ اختلاط (میل جول) پر پابندیاں عائد کرنا دراصل اْن کے اخلاق اور اْن کی سیرت پر حملہ ہے۔اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گویا تمام افراد کو بدچلن فرض کر لیا گیا ہے، اور یہ کہ ایسی پابندیاں لگانے والوں کو نہ اپنی عورتوں پر اعتماد ہے نہ مردوں پر۔ بات بڑی معقول ہے مگر اسی طرز استدلال کو ذرا آگے بڑھائیے۔ہر تالا جو کسی دروازے پر لگایا جاتا ہے گویا اس امر کا اعلان ہے کہ اس کے مالک نے تمام دنیا کو چور فرض کر لیا ہے۔ ہر پولیس مین کا وجود اس پر شاہد ہے کہ حکومت اپنی تمام رعایا کو بدمعاش سمجھتی ہے۔ ہر لین دین میں جو دستاویز لکھوائی جاتی ہے، وہ اس امر پر دلیل ہے کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کو خائن قرار دیا ہے۔اس طرز استدلال کے لحاظ سے تو آپ ہر لمحے چور، بدمعاش، خائن اور مشتبہ چال چلن کے آدمی قرار دیے جاتے ہیں، مگر آپ کی عزتِ نفس کو ذرا سی بھی ٹھیس نہیں لگتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف اسی ایک معاملہ میں آپ کے احساسات اتنے نازک ہو گئے ہیں؟
قرا?ٓن پاک سے یہ حقیقت ہمارے سامنے ا?ٓتی ہے کہ حیا مرد اور عورت دونوں کا یکساں اخلاقی وصف ہے۔ یہ وصف ہمیں پوری ا?ب و تاب کے ساتھ قصۂ آ?دم و حوا میں نظر ا?تا ہے۔ جب دونوں میاں بیوی نے ابلیس کے دھوکے میں ا?کر شجرِممنوعہ کا پھل کھالیا تو ان کا جنت کا لباس اْتروا لیا گیا تھا۔ دونوں کو اپنی برہنگی کا احساس ہوا اور اس حالت میں انہیں اور کچھ نہ سْوجھا تو انہوں نے فوراً جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہیں ڈھانپنے کی کوشش کی۔ ’’جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو اْن کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے‘‘۔ (الاعراف:۲۲)
حیا سے متعلق احادیث نبوی ?اور ارشاد ات ربانی بھی ہمیں معلوم ہونے چاہییں۔قرآن حکیم کی سورہ نساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) مومن خواتین سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے بناؤ سنگار کو نامحرم پر ظاہر نہ کریں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادگرامی ہے کہ ’’ ہر دین کاکوئی نہ کوئی امتیازی وصف ہے اوردین اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ’’ حیاء اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ، ان میں سے اگر ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خود بخوداٹھ جاتا ہے‘‘ یعنی کہ ایمان و حیاء لازم و ملزوم ہیں۔ حجاب کا حکم قرآن حکیم کی سورہ نور کی آیت نمبر 31میں بھی نازل ہواہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اے نبی(صلی اللہ علیہ و سلم ) مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں۔ ‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے بازار سے گزر رہے تھے اور ایک شخص اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں وعظ کر رہا تھا۔ حضور نے فرمایا دعہ فان الحیاء من الایمان حضور نے فرمایا چھوڑ دے اس کو، وعظ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ حیا تو ویسے ہی ایمان سے ہے۔ جب ایمان ہوگا تو حیا خود بخود ہوگی۔ ہمارے رسول اللہﷺ کے بارے میں حضرت ابوسعید الخدریؒ سے روایت ہے: ’’رسول اللہﷺ تخلیہ میں بیٹھی ایک کنواری دوشیزہ سے بھی کہیں بڑھ کر صاحبِ حیا تھے۔ حضورﷺ کو جب کوئی چیز ناگوار گزرتی تو ہم آ?پﷺ کے چہرے سے بھانپ لیا کرتے تھے‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ایمان کی ساٹھ یا ستر سے کچھ اوپر شاخیں یا پہلو ہیں۔ بلند ترین شاخ تو یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور عبادت کا مستحق نہیں اور اس کا ادنیٰ شعبہ (خدمتِ انسانی سے تعلق رکھنے والا ایک چھوٹا سا کام) راستے سے کوئی ایسی چیز ہٹا دینا ہے، جس سے گزرنے والوں کو تکلیف پہنچنے کا احتمال ہو اور یاد رہے کہ حیا بھی ایمان کا ایک پہلو ہے‘‘۔
بلاشبہ حیاء وہ عمدہ اخلاق ہے جو انسان کو ہر برائی سے باز رکھتا ہے ارتکاب معاصی میں حائل ہو کر آدمی کو گناہ سے بچاتا ہے۔ اسلام کا عملا دارو مدار حیاء پر ہے کیونکہ وہی ایک ایسا قانون شرعی ہے جو تمام افعال کو منظم اور مرتب کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام نے حیاء دار اخلاق پر زور دیا ہے۔ تمام عقل وفطرت مستقیمہ نے بھی اس کا اقرار کیا ہے اور یہ وہ امر ہے جس میں جن وانس کے تمام شیاطین مل کر بھی تبدیل نہیں کرسکے۔ جس میں حیاء ہوتی ہے اس میں نیکی کے تمام اسباب موجود ہوتے ہیں اور جس شخص میں حیاء ہی نہ رہے اس کے نیکی کرنے کے تمام اسباب معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ حیاء انسان اور گناہ کے درمیان حائل ہونے والی چیز ہے۔ اگر حیاء قوی ہے تو گناہ کی قوت ماند پڑ جائے گی۔ اور اگر حیاء کمزور پڑ جائے تو گناہ کی قوت غالب آجاتی ہے۔ حیا ایمان سے جْڑ کر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں سے منع کیا ہے، اْن کے کرنے سے روکتی اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا، ان کو بجا لانے کی تحریک دیتی ہے۔ جب یہ شعور کی روشنی بنتی ہے تو اس سے اللہ کی وحدانیت کا احساس مضبوط ہوتا ہے۔ ایمان باللہ کو تقویت ملتی ہے، تَعَلْق بِاللّٰہ میں مضبوطی ا?ٓتی ہے اور باطن سے حْب اللہ کی شعاعیں پھوٹتی ہیں، توکل علی اللہ کی خاصیت اجاگر ہوتی ہے۔ (تزکیۂ نفس میں حیا کا اثر)
زندگی کے جس شعبے سے بھی حیا رخصت ہو جائے وہاں بے اصولی اور بے ضمیری ، بے شرمی و بے حیائی غالب آ?جاتی ہے۔ جھوٹ اور مکر و فریب کو فروغ ملتا ہے۔ خودغرضی اور نفس پرستی و مادہ پرستی کا چلن عام ہو جاتا ہے۔ حرص و ہوس غالب ا?تی ہے۔ دل و دماغ پر خدا پرستی کے بجائے مادہ پرستی چھا جاتی ہے۔
محسن انسانیت ﷺ?نے فرمایا:”جب اللہ?تعالیٰ کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تواس سے شرم و حیا چھین لیتاہے۔حیا کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ یہ معاشرتی معاشرتی زندگی کے ہر ہر پہلو کا احاطہ کرسکتا ہے حیا صرف یہ نہیں ہوتی کہ حجاب لے لیا جائے یا ساتر لباس پہن لیا جائے بلکہ حیا کی وسعت کا اندازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار احادیث اور سنت سے بخوبی عیاں ہے۔ تمام انبیاء باحیا تھے اور حیا کو پسند کرنے والے تھے۔انبیاء کرام کی سنتوں سے بھی ہمیں حیاکی تاکید ملتی ہے۔ہر دور میں اللہ نے اس معاشرے کا سب سے باحیا شخص بطور نبی مبعوث کیاہے۔حضرت موسی علیہ السلام ایک عظیم پیمبر تھے جو اللہ سے براہ راست ہم کلام ہوئے ایک مرتبہ سفر میں تھے گرمی کا موسم تھا پاؤں ننگے تھے سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑچکے تھے۔ ذرا آرام کرنے کے لیے درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر کنواں ہے وہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر باحیا دو لڑکیاں کھڑی ہیں۔ جب آپ نے ان کو دیکھا تو حیرانگی کی انتہاء نہ ہیں کہ یہ دونوں لڑکیاں جنگل میں کھڑی ہو کرکس کا انتظار کر رہی ہیں ہیں حضرت موسی نے جب وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں ہے باپ بوڑھا ہے وہ اس قابل نہیں کہ چل پھر سکے۔ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔ حضرت موسی ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے اور خود پانی کنویں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلا دیا۔ لڑکیاں جب خلاف معمول جلدی گھر پہنچی تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ باپ خود بھی پیغمبر تھے ان فرمایا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلا کر لاؤ تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ جب ایک لڑکی حضرت موسی کو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی اس کا انداز کیا تھا قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جو کہ شرم و حیا سے لبریز تھا اس طرح بیان کیا ہے۔ترجمہ” پھر ان دونوں میں سے ایک’ شرم و حیا سے چلتی ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جو آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے (القصص35)
عملی اعتبار سے حیا کے تین شعبے ہیں
1۔ اللہ سے حیا2۔ لوگوں سے حیا3۔ اپنے نفس سے حیا
1۔اللہ سے حیا :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی سے اتنی حیا کرو جتنا اس کا حق ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس سے حیا کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن اس کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے اس کی حفاظت کرو پھر پیٹ اور اس میں جو کچھ اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے اس کی حفاظت کرو اور پھر موت اور ہڈیوں کے گل سڑجانے کو یاد کیا کرو اور جو آخرت کی کامیابی چاہے گا وہ دنیا کی زینت کو ترک کردے گا اور جس نے ایسا کیا اس نے اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کردیا(جامع ترمذی)
اس حدیث میں اللہ سے حیا کا مطلب جو بتایا گیا ہے سب سے پہلے اس میں سر کا ذکر کیا گیا ہے جسے خدا نے انسانی تقدس عطا فرمایا ہے۔ سب سے پہلے سر کو اللہ تعالی کے سوا کسی کے لئے نہ جھکایا جائے یہ اللہ سے حیا ہو گی اور نہ سر کو تکبروغرور میں بلند کیا جائے۔ سر کے ساتھ کئی چیزوں سے مراد زبان آنکھ کان ہیں۔ اور ان کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ ان اعضاءکو گناہوں سے بچایا جائے جسے زبان سے جھوٹ غیبت چغلی عیب جوئی ، زبان درازی نہ کی جائے۔ اسی طرح آنکھ سے گناہ سے بچا جائے آنکھ سے گناہ کی چیزیں نہ دیکھی جائیں۔ کان سیکسی کی غیبت اور جھوٹ نہ سنا جائے یا گانیو فحش باتیں نہ سنی جائیں۔ بالکل اسی طرح پیٹ کے ساتھ کی چیزوں سے جسم کے وہ حصے اور اعضاء ا مراد ہیں جو پیٹ سے ملے ہوئے ہیں جیسے ستر ہاتھ پاؤں دل وغیرہ۔ ان سے یہ مطلب ہے کہ جسم کے اعضاء اور حصوں کو بھی گناہ سے حتی الامکان محفوظ رکھا جائے۔ جیسے ستر کی حفاظت کی جائے۔ پیروں کو گناہ آلود ہونے سے بچایا جائے دل کو برے عقائد برے نظریات گندے خیالات اور اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی یاد سے پاک رکھا جائے۔ کیوں کہ یہ فانی جسم خواہ کتنا ہی حسین وجمیل،خوبصورت،کم عمر،لچکدار،محنتی، باعظمت باعزت کیوں نہ ہو آخر ایک دن قبر کی آغوش میں سلا دیا جائے گا جہاں گوشت اور ہڈیاں تک بوسیدہ ہو جائیں گی۔اسی لئے اللہ تعالی سے حیا کرنے کا حکم دیا گیاہے۔
2۔لوگوں سے حیا: لوگوں سے حیا یہ ہے کہ حقوق العباد کو ہر ممکن طریقے سے ادا کئے جائیں۔ والدین کے حقوق، اساتذہ کے حقوق،میاں بیوی کے حقوق، اولاد کے حقوق، دوست، احباب، ساتھ چلنے اٹھنے بیٹھنے والے ،ہمسایوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق بزرگوں کے حقوق شامل ہیں جس سے معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اسلام کے احکامات پر عمل کرنا بالکل فطرت کے عین مطابق ہے۔ ان تمام لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو معیوب اور برا سمجھا جاتا ہے ان کے اظہار سے بچنا دراصل حیا ہے۔ان تمام معاشرتی افراد کے حقوق ادا کرنا ہیں دراصل حیا ہے۔ ان لوگوں کے حقوق میں دست درازی کرنا یا ان کے حقوق ادا نہ کرنا دراصل بیحیائی ہے۔
3۔اپنے نفس سے حیا: اپنے نفس سیحیا یہ ہے کہ نفس کو ہر برے، قابل گناہ ،قابل مذمت اور قابل شرم کاموں سے بچایا جائے۔ہر معصیت کے کاموں پر روک تھام کے لیے نفس لوامہ کی بات سنی جائے۔ اپنے نفس کو نفس امارہ بچنے سے روکا جائے اورنفس مطمئنہ جیسے نفس کی جانب راغب کیا جائے تاکہ ابدی قیام کی جنتوں میں ہمیشہ کی زندگی ممکن ہو سکے۔
جس طرح پیٹ ،دماغ ،بدن ،زبان اور جسم میں موجود تمام نعمتوں کے استعمال میں اللہ سے حیا کرنی چاہیے۔بالکل جسم سے اٹھنے والے خیالات کے بارے میں بھی اللہ سے حیاکرنی چائیے۔حضرت ابو امامہ ؓ ?نے روایت کیاہے کہ محسن انسانیت ﷺ?نے فرمایا: ’’جس مرد مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مرد مومن کو محسوس ہو گی۔‘‘حضرت ام سلمہؓ ?بیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہؓ محسن انسانیت ?کے پاس بیٹھی تھیں کہ ایک نابینا صحابی ابن ام مکتوم ؓ?حاضر خدمت اقدس ہوئے تو ہمیں حکم ہوا کہ ’’تم (دونوں)ان سے پردہ کرو‘‘۔ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ!کیا وہ نابینا نہیں؟پس محسن انسانیت ?نے فرمایا:’’کیا تم (دونوں)بھی نابینا ہو؟کیا تم (دونوں)انہیں نہیں دیکھتیں؟‘‘۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:پہلی بار دیکھنا غلطی ہے، دوسری بار دیکھنا جان کر گناہ کرنا ہے اور تیسری بار دیکھنا ہلاکت ہے، انسان کا عورت کے جسمانی محاسن دیکھنا ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے جس مسلمان نے اسکو اللہ کے خوف سے اور اللہ کے پاس موجود انعامات کے حاصل کرنے کی امید میں چھوڑ دیا تو اللہ اس کی وجہ سے اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائیں گے، جو اس کو اپنی عبادت اور نظر کی پاکیزگی کا مزہ نصیب کرے گی۔جہاں ہر طرف بے پردگی، بے حجابی، عریانی اور فحاشی کا بازار گرم ہو، ایسے میں اپنی نگاہوں کو بچانا مشکل ہوجاتاہے۔ مگر جن اللہ کے نیک بندوں کو ایمان کی حلاوت حاصل کرناہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت ہوتی ہے اور جن کو باطن کی صفائی و طہارت مدنظر ہوتی ہے وہ اس کڑوے گھونٹ کو ہمت کرکے پی جاتے ہیں اور جب ان کو عادت ہوجاتی ہے تو وہ لوگ اس کی حلاوت محسوس کرتے ہیں اور چین و سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر بے انتہا انعامات کی بارش فرماتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہ نگاہ اور خیالات کی حیاہے۔
روز اول سے شیطان کا یہی مقصد ہے کہ وہ انسان کی حیا پر وار کرے اس لیے دشمنان اسلام بھی اسلام ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے مسلمانوں کی حیا ہی پر وار کرتے ہیں۔ دشمنان اسلام تحقیق کے ذریعے یہ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان کی حیا کہاں کہاں متاثر ہوسکتی ہے اسی لیے اسمارٹ فون،انڈووژول ڈیوائسز کا تصور آیا۔ اسمارٹ فون میں انسان اکیلے میں اگر اللہ کا خوف نہ ہو تو باآسانی گناہ کی طرح راغب ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہے کہ ہمارا رب اور ہمارا خالق و مالک تنہائیوں میں بھی ہمارے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔آج کے دور میں ایک بندہ مومن کے لئے پہلے کی نسبت حیا بچانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔خوف للہیت کی ضرورت پہلے کی نسبت اب بہت بڑھ گئی ہے۔کیونکہ مسلمان کو بھٹکانے کے لئے نت نئے آلات جنم لے رہے ہیں اس کے علاوہ ڈراموں فلموں مارننگ شوز، مختلف ٹی وی پروگراموں کے ذریعے معاشرے میں بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے تاکہ مسلمانوں کی حیا ختم ہو جائے اور جب حیا چلی جائے گی تو ایمان خودبخود رخصت ہوجائے گا۔ جمہور صحابہ وتابعین اور عام مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث سے مراد گانا بجانا اور اس کا ساز وسامان ہے او ر سازو سامان، موسیقی کے آلات ہیں۔اس کے علاوہ ہر وہ چیزجو انسان کو خیر او ربھلائی سے غافل کر دے اور اللہ کی عبادت سے دور کردے لہو الحدیث ہے۔ لہو الحدیث میں بازاری قصے کہانیاں ، افسانے ، ڈرامے، ناول اورسنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بے حیائی کے پر چار کرنے والے اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر ، ویڈیو فلمیں ،ڈش انٹینا وغیرہ اسی میں شمار ہوتے ہیں۔آج میڈیاپر دن رات یہی راگ الاپے جاتے ہیںکہ یہی زندگی ہے۔کھالے پی لے جی لے،جیسے چاہو جیو،زندگی کا مزہ لووغیرہ۔ایسی باتوں کی تکرار اور قرآن سے دوری کے سبب آج پاکستانی قوم ناچاہتے ہوئے بھی اپنے رب کے پیغام کو بھولتی جارہی ہے۔اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کئی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی مدینہ ثانی ریاست کے باشندے اپنے اصل پیغام کو کیسے بھولتے جارہے ہیں اسکا ایک سبب یہی میڈیا اور بیلگام فحش انٹر نیٹ مواد ہے۔جو ہر خاص و عام ،چھوٹے بڑے،بوڑھے جوان،عورت و مرد کو باآسانی مہیا کیاجارہاہے۔اسکے لئے آپ کو زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی بس ایک کلک کیجئے اور دنیا آپکی انگلیوں پہ ہے۔۔اور جب حیا ختم ہوجائے تو ایمان آہستہ آہستہ خود بخود رخصت ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اصل معنوں میں حیادار بنائے اور حیادار معاشرے کی تکمیل میں ہماری کوششوں کو اپنی بارگاہ میں مقبولیت کا درجہ عطافرمائے۔تاکہ روز قیامت اپنے سب سے زیادہ باحیاء نبی ﷺ کے حضور ہم سرخروہوسکیں آمین۔