جھوٹ ہی جھوٹ، کھوٹ ہی کھوٹ

588

اس قوم کے ساتھ اتنا مذاق کیا گیا ہے کہ مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ یہاں سچ وہی ہے جو طے کردیا گیا ہے۔ سطوت و سلطنت کے قابضین کو خوش آتا ہے۔ جنرل ایوب خان آئے تو وہ جنہوں نے آزادی کی جنگ لڑی تھی ان کے متعلق اس قدر دھول اڑائی گئی، بدعنوان اور چور کہا گیا کہ قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح بھی سینہ زوروں کے نزدیک حکومت کی اہل نہ تھیں۔ اس دور کا سچ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان تھے۔ جنرل یحییٰ خان ملک وقوم کے مالک بنے تو ملک کی نصف آبادی جنہیں جنرل ایوب خان کے دور میں بھوکے بنگالی کہہ کر دل خوش کیا جاتا تھا غدار کہلائی گئی۔ حکمرانوں کے اس سچ کی قوم نے پوری قیمت ادا کی۔ جنرل ضیا الحق آئے تو بتایا گیا کہ تمام برائیوں کی جڑ سابق وزیراعظم بھٹو ہیں۔ یہ وہ سچ تھا جس کی منزل پھانسی گھاٹ ہی قوم کی منزل قرار پائی۔ جنرل ضیاالحق سو خطیبوں کے ایک خطیب اور روح اسلام، اس دور کا سچ تھے۔ ان کی رخصت کا بندوبست ہوا تو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ایک میوزیکل چیئر کا اہتمام کیا گیا۔ دونوں کو پوری دل جمعی اور تندہی کے ساتھ خراب کیا گیا۔ ان کے بیچ حالات خراب کرنے اور عقب سے معاملات ہاتھ میں رکھنے کا پورا اہتمام کیا گیا۔ پھر قوم کو حکم دیا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کے حضور سلامی پیش کرے کہ اب سچ کا علم ان کے ہاتھ میں تھا۔ نواز شریف کو ہائی جیکر کہہ کر، مشکیں کس کر ہتھکڑی لگا کر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔ جہاں وہ اس ملک میں طے کردہ سچائی کے دستور اور طریقے کے مطابق بذریعہ عدالت ہائی جیکر ثابت کیے گئے۔ وہ جج صاحب نجانے کس کوڑے دان میں پڑے ہیں جنہوں نے نواز شریف کو ہائی جیکر قرار دیا کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی ہٹ دھرمی نے قوم کو مایوس اور مائوف کیا لیکن جو ہورہا تھا مقتدروں کے نزدیک اسے ہی اور ایسے ہی ہونا چاہیے تھا۔ امریکا سے دوستی کی قیمت پر افغانستان کے مسلمانوں کے قتل میں شراکت اس عہد کا سچ تھا۔ کس میں اتنی جرات کہ اس سچ کے مقابل آتا۔ طاقت اور سچ کی چھڑی جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف سے ہوتی ہوئی جنرل باجوہ کو
منتقل ہو گئی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف چونکہ امریکا سے پا کستان تک احترام والوں کے احترام سے گریزاں تھے اس لیے ہماری محترم عدالتیں ایک بار پھر متحرک ہوگئیں۔ اس بارنواز شریف کو سسلین مافیا اور گاڈ فادر کہہ کر ازراہ انصاف اقامے کا مجرم ٹھیرا گیا۔ ایوان اقتدار سے عملاً دھکے دے کر نکالا گیا۔ نواز شریف اس کے باوجود سچ کے پیکروں کی بدخواہی اور بدگوئی سے باز نہ آئے تو نجانے کیسے کیسے مقدمات، کہاں کہاں سے نکال کر ان کے خلاف کھڑے کردیے گئے۔ ہمارے معیار انصاف کے مطابق وہ ایک بار پھر مجرم ثابت کردیے گئے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جج نے خود اعتراف کرڈالا کہ مجھ پر دبائو تھا۔ میں نے دبائو میں آکر فیصلہ دیا۔ جج ارشد ملک کو باعث شرم وجود کہا گیا۔ لیکن اس کے باوجود نواز شریف کے اغوا کار انہیں چھوڑنے پر تیار نہیں۔
اب سچائی کے دعویداروں کے مقابل آنے والوں کو بد دیانت اور پست قرار دینے کے لیے سیاست کے میدان ہی میں ایک ایسا سوار تیار کیا گیا کہ اس وظیفہ خوار کی موجودگی میں کسی اور کو جملہ سیاست دانوں کو برا بھلا کہنے کی ضرورت نہ رہی۔ چور ڈاکو، لٹیرا کرپٹ اور ’’چھوڑوں گا نہیں‘‘ اس کا وظیفہ طے پایا۔ بے بال وپر پا کستان! ایک سال کے اندر معیشت کا ایسا بیڑہ غرق کروایا گیا کہ اگر مودی کو بھی یہ مشن سونپا جاتا تو وہ اتنے فوری اور تباہ کن نتائج نہ دیتا۔ سلیکٹڈ نے امریکا سے لے کر پاکستان تک احترام والوں کا اتنا احترام کیا کہ آنکھ کا تارا بن گیا۔ تب ظلم اور ضلالت کی وادیوں سے اسے ایک نیا مشن سونپا گیا۔ مقبوضہ کشمیر۔
ہر نسل کی اپنی خوشیاں اور اپنے دکھ ہیں۔ اس نسل کا دکھ کشمیر ہے، فلسطین ہے، شام ہے، لیبیا ہے، عراق ہے، افغانستان ہے، رو ہنگیا ہے۔ امت مسلمہ ہے۔ اسلامی ممالک کی قیادتیں اس طرف سے منہ موڑے کھڑی ہیں لیکن دنیا بھر کے مسلمان اس کاروان سے جدا ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے دل تڑپ اٹھتے ہیں، وہ بھڑک اٹھتے ہیں جب امت پر کہیں ہلاکت مسلط کی جاتی ہے۔ آج پاکستان کے مسلمان مشتعل ہیں، ناراض ہیں۔ وہ اپنی کشمیری بہنوں، بیٹیوں، مائوں، جوانوں، بچوں اور بوڑھوں کو بھارتی درندوں کا شکار ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ ان کا غصہ آخری حدوں کو چھورہا ہے لیکن ان کی سول اور فوجی قیادت اس ایجنڈے کی تکمیل کررہی ہے جس کا وہ امریکا میں وعدہ کرکے آئی ہے۔ بھارت کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے کا وعدہ۔ حکومت مسئلے کے اصل حل کی طرف آنے کے بجائے وہ سب کچھ کررہی ہے جو غیر ضروری ہے لا حاصل ہے۔
وزیراعظم کی طاقت گفتار کے کیا کہنے۔ کبھی وہ آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کررہے ہیں۔ اپنے آپ کو کشمیر کا سفیر قرار دے رہے ہیں۔ ہر فورم پر کشمیر کا مسئلہ اٹھانے کا وعدہ کررہے ہیں لیکن ملک سے باہر قدم نکالنے کے لیے تیار نہیں۔ آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد نریندر مودی 12 سے زائد ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ ان کے وزیر خارجہ چالیس ممالک کے دورے کرچکے ہیں جب کے ہمارے نامہ عمل میں وزیر اعظم کے 23 ٹوئٹس اور وزیر خارجہ کے 26ممالک کو ٹیلی فون کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ہے وہ عظیم جدو جہد جو ہمارے حکمرانوں نے کشمیر کے مسلمانوں کے قتل عام اور ان کی نسل کشی کے خلاف کی ہے۔ مودی اندر گھس کر مارنے کی بات کررہا ہے لیکن ہماری سول اور فوجی قیادت بہ یک زبان جنگ نہ کرنے کا عہد نبھارہی ہے۔
قوم کو الجھایا جارہا ہے۔ وہ توقعات اور وقت کے تقاضوں کے برعکس قدم اٹھارہے ہیں اور اسے قوم سے چھپانا بھی چاہتے ہیں۔ ایک برطانوی نژاد باکسر کے کنٹرول لائن پر جانے کا عزم، فوجی قیادت شاد باد منزل مراد۔ وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب جو عظیم پیش رفت کی ہے وہ جمعہ کے جمعہ دوپہر بارہ سے ساڑھے بارہ بجے تک ملک کو مفلوج کرنا ہے۔ وہ بہ ہر عنوان ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کنٹرول میڈیا سے باہر نکل کر دیکھیں اس تجویز کا کس طرح مذاق اڑایا جارہا ہے۔ احتجاج مسلمانوں کا مزاج ہے اور نہ احتجاج سے شر اور ظلم کی طاقتیں اپنے ارادوں سے بازآتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود سے لے کر افغانستان کی حالیہ جنگ تک مسلمانوں نے کبھی احتجاج شعار نہیں کیا۔ جہاد کی فرضیت پر بھروسا کیا اور کا میاب رہے۔ حکمران سمجھیں یا نہ سمجھیں قوم یہ بات اچھی طرح سمجھتی اور جانتی ہے۔
جھوٹ کے اس چو طرفہ ہجوم میں حکمرانوں نے سچ کو بہت اذیتیں دی ہیں۔ ان کی ہر بات جھوٹ۔ کھوٹ ہی کھوٹ۔ اندرونی معاملات سے لے کر کشمیر تک ان کا اعتبار ختم ہورہا ہے جس کے باعث یہ جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہیں۔ یہ ملک ابتدا سے فریاد کناں ہے کہ اندرونی حالات پر توجہ دو۔ اندرونی صورت حال کو درست کرو۔ معیشت کو درست کرنا آپ کے بس میں ہے اور نہ کسی سلیکٹڈ کے۔ سول حکمرانوں کو پابند سلاسل رکھنے، انہیں بدنام کرنے، بدعنوان کہنے کی حکمت عملی جنرل ایوب خان کے دور سے لے کر تاحال ملک وقوم کے لیے اچھی رہی نہ اچھی رہے گی۔ سیاست دانوں کو گھیرنے کے لیے عدالتوں کا استعمال! نظام عدل کو ایک مذاق اور واٹس اپ انصاف بنادیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جو سیاست دان بند ہیں اب وہ ڈبوں میں ہی باہر نکلیں گے۔ انصاف کا قتل کرکے، سول حکمرانوںکی لاشوں کے اوپر سے گزر کر، قوم کی امنگوں کے برعکس چل کر اور امت مسلمہ سے غداری کرکے نہ آپ کامیاب ہوسکتے ہیں نہ ہی یہ ملک دنیا میں کسی باعزت مقام پر فائز ہوسکتا ہے۔
مخالفین چو نکہ اس ایجنڈے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے اس لیے عجیب وغریب الزامات کا پٹارہ مرتب کرکے عدالتوں کے سپرد کردیا گیا اور عدالتوں نے انہیں شکار کرنا شروع کردیا۔ رانا ثنا اللہ کا مقدمہ سننے والے جج کو دوران سماعت ہی واٹس اپ پیغام آیا اور وہ مقدمہ سننے سے محروم کردیا گیا۔ جن دنوں نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی تب بھی واٹس اپ ہی ذریعہ انصاف تھا۔