کل پاکستان اجتماع عام جماعت اسلامی پاکستان(باب یازدہم)

329

 

 

(۲۵،۲۶،۲۷اکتوبر۱۹۶۳ء لاہور)
مرکزی مجلس شوریٰ کا فیصلہ
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے ۸ تا ۱۳ ؍جولائی ۱۹۶۳ء کے اجلاس میں‘ اقبال پارک لاہور میں کل پاکستان اجتماع عام ۲۵ تا۲۸ ؍اکتوبر۱۹۶۳ء کومنعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن ایوب خان کی حکومت اجتماع کے انعقاد کی اجازت دینے میں ٹال مٹول کرتی رہی۔ بعداز خرابی بسیار صوبائی حکومت نے جس کے گورنر ملک امیرمحمد خاں نواب آف کالا باغ تھے‘یہ اجتماع لاہور کے میونسپل باغ میں منعقد کرنے کی اجازت دی جو بھاٹی گیٹ اور ٹکسالی دروازے کے درمیان واقع ہے۔
اجتماع سے پہلے ایک دھمکی آمیز ٹیلی فون (۱)
۲۱؍ ستمبر ۱۹۶۳ء کو ٹھیک دن کے ایک بجے ایک صاحب نے خود کو اعلیٰ سرکاری افسر ظاہر کرکے امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا مودودیؒ سے ان کے ایک حالیہ بیان کی وضاحت مانگی‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ:’’ اگر کنونشن لیگ کسی فرشتے کو بھی کھڑا کرے تو ہم اس کا ساتھ نہ دیں گے‘‘۔ مولانا نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ:’’ ایک شخص ذاتی طورپر کتنا ہی نیک ہو‘ لیکن اگر وہ ایک استبدادی نظام کی پشت پناہی کررہا ہو تو اس کی ذاتی نیکی کا کوئی وزن نہیں رہتا‘‘۔ اس پر ان صاحب نے مولانا مودودیؒ سے معذرت نامہ لکھ کر دینے کو کہا اور تنبیہہ کی کہ:’’ بصورت دیگر حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے گی‘‘۔ مولانا مودودیؒ نے اس کے جواب میں کہا کہ:’’ میں معذرت نامے لکھ کر کبھی نہیں دیتا۔ میرے خلاف کسی کو جو کارروائی کرنا ہو کرتا رہے‘‘۔
اجتماع کی جگہ کی منظوری میں ٹال مٹول اور تبدیلی کا حکم
اس اجتماع کے انعقاد کے لیے جماعت نے اپنی شوریٰ کے فیصلے کے مطابق اقبال پارک (منٹو پارک) میں ۲۵ تا۲۷؍ اکتوبر۱۹۶۳ء تک اجتماع عام کی منظوری کے لیے۳۰؍ جولائی کو ایک باضابطہ درخواست ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاہور کو دے دی تھی۔ بعد میں کہا گیا کہ صوبائی حکومت کے ہوم سیکریٹری سے اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہوم سیکریٹری کو درخواست پیش کی گئی تو انہوں نے نئی درخواست پیش کرنے کو کہا۔ جس کی تعمیل میں ۲۵؍ اگست۱۹۶۳ء کو ایک تازہ درخواست پیش کی گئی۔(۲) ہوم سیکریٹری نے ایک ہفتے میں
درخواست پر فیصلہ کرنے کا وعدہ کیا۔ ایک ہفتے بعد ۲؍ ستمبر کو ان سے ملاقات کی تو فرمایا کہ:’’ ایک ہفتہ اور لگے گا‘‘۔ اس طرح مسلسل دو ماہ تک تاخیری حربے استعمال کرنے کے بعد ۴؍ اکتوبر۱۹۶۳ء کو ہوم سیکریٹری نے اقبال پارک کے بجائے بیرون بھاٹی گیٹ جلسہ منعقد کرنے کی اجازت دی‘ جو کل پاکستان اجتماع کے لیے جس میں ہزاروں افراد ملک کے طول و عرض سے شرکت کے لیے آرہے تھے جگہ بہت کم اور تنگ تھی۔ یہ جگہ ۲۱۰۰ فٹ لمبی اور ۲۰۰ فٹ چوڑی تھی۔ جس میں اجتماع گاہ‘ قیام گاہ‘ خواتین کی قیام گاہ‘ مطبخ‘ دفاتر‘ بک اسٹالز‘ غسل خانے‘ بیت الخلاء‘ اسپتال‘ سائیکل اسٹینڈ اور پارکنگ کا انتظام کرنا جماعت کے کارکنوں کا ایک کڑا امتحان تھا۔(۳)
لائوڈ اسپیکر کی اجازت سے انکار
۱۶؍ اکتوبر۱۹۶۳ء کو مجسٹریٹ صاحب نے لائوڈ اسپیکر کی اجازت دینے سے انکار کردیا‘ جبکہ اس اجتماع میں شہر لاہور اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہزاروں اراکین اور متفقین آرہے تھے۔ لائوڈ اسپیکر کی اجازت نہ دینا‘ اجتماع کے انعقاد کو عملاً روکنے کے مترادف تھا۔
جماعت اسلامی نے لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کے حکم کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کردی۔ (۴)فاضل جج نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے نام ۲۱؍ اکتوبر کے لیے نوٹس جاری کردیا۔ درخواست میں یہ بھی بتایا گیا کہ انھی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب نے ۱۴ ؍ستمبر کو مزنگ میں‘ ۲۱؍ ستمبر کو پرانی انارکلی میں‘ ۲۸؍ ستمبر کو لنڈے بازار میں‘ ۱۵؍ اکتوبر کو گڑھی شاہو میں اور ۱۳ اور ۱۶؍ اکتوبر کو اسی بھاٹی دروازے میں مختلف جلسوں کے لیے لائوڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ پہلے تو زبانی انکار کیا گیا تھا۔ جب معاملہ ہائی کورٹ میں چلا گیا تو گورنرامیرمحمدخاں نے مستقل پابندی کا نیا آرڈیننس جاری کردیا تاکہ‘ ہائی کورٹ کا فیصلہ صادر ہونے سے پہلے قانون تبدیل کردیا جائے۔(۵) نیا آرڈیننس نافذہونے کے بعد کمشنر صاحب کے نام ایک نئی درخواست دی گئی‘ جو ایسی بناوٹی وجوہ کی بناء پر مسترد کردی گئی‘ جو بقول مجسٹریٹ صاحب کے:’’ اہل محلہ کی مخالفت اور جماعت کے خلاف پوسٹر لگنے کی وجہ سے نقص امن عام کا خطرہ تھا‘‘۔ مگر معززین محلہ نے اس بات کی پرزور تردید کردی اور کہا کہ:’’ہمیں جلسہ کرنے یا اس میں لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔(۶)
(جاری ہے)