دو محاذوں کی جنگ

452

 

 

پاکستان نے دو سو نوے کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل غوری کا کامیاب تجربہ کیا تو بھارتی میڈیا میں ایک طوفان سا برپا ہوگیا۔ کم فاصلے تک مار کرنے والے اس میزائل تجربے پر اکثر بھارتی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اسے موجودہ حالات میں پاکستان کی طرف سے جنگی جنون پیدا کرنے کی حکمت عملی قرار دیا۔ اکثر بھارتی تجزیہ نگاروں نے اسے آزاد کشمیر اسمبلی اور قوم سے حالیہ خطاب میں وزیر اعظم عمران خان کی ایٹمی جنگ کی دھمکیوں اور وفاقی وزیر شیخ رشید کی اکتوبر نومبر میں جنگ کی پیش گوئی کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔ یوں بھارت میں غزنوی میزائل کے پیغام کو ٹھیک طور پر سمجھا گیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں بیک وقت دو جہتی جنگوں کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند برس سے بھارتی فوج کے سربراہ مسلسل اس بات کا اعادہ کر رہے ہیںکہ بھارت کو بیک وقت دومحاذوں چین اور پاکستان کے ساتھ جنگی حکمت عملی تیار کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں یہ تاثر بہت گہرا ہو چکا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کی جنگ صرف بھارت تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اسرائیل اس جنگ کا اہم اور دوسرا فریق اور کھلاڑی ہوگا۔ اس تاثر کی وجہ نوے کی دہائی سے بھارت اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات ہیں۔ بھارت نے پاکستان کی فوجی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے اسرائیل کے دماغوں سے ہی نہیں ٹیکنالوجی سے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ بالاکوٹ حملے کے وقت پاکستان کا یہ شک اس وقت حقیقت میں بدل کر سامنے آیا جب دو پائلٹس کی گرفتاری کی بات ہوئی مگر تھوڑے ہی وقت کے بعد بھارتی پائلٹ ابھی نندن کا نام تو زباں زد عام تھا اور وہ چائے کی چسکیاں لے کر اپنی گرفتاری پر تبصرے کر رہا تھا مگر دوسرے پائلٹ کا نام میڈیا سے گدھے کے سر سے سینگوں کی مانند غائب ہو چکا تھا۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ یہ اسرائیل کا پائلٹ تھا جسے پاکستان کسی اچھے موقع کے لیے کہیں رکھ کر بھول گیا ہے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی بااثر افراد اور میڈیا میں پاک فوج کے ترجمان سمجھے جانے والے کئی ریٹائرڈ جرنیل اس بات کا دبے لفظوں میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ابھی نندن کے ساتھ پکڑا جانے والا دوسرا پائلٹ اسرائیل کا ہے۔ اسرائیل اپنی خفت کے پیش نظر اور پاکستان خفت کے اس خوف کا مزہ لینے کے لیے معاملے کو دبائے بیٹھا ہے۔
چندد ن قبل اسرائیل کے اخبار ’’ہیرٹز‘‘ کے ایک صفحے کا عکس اور اس پر ایک پائلٹ کی تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا جس میں اسرائیل کے پائلٹ کی پاکستان میں گرفتاری کا تذکرہ کیا گیا تھا مگر سوشل میڈیا چونکہ غلط اور تصوراتی خبروں کا سب بڑا منبع ہے اس لیے اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ہیرٹز اسرائیل کا سب سے بڑا اخبار ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ یہ خبر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتی اور اسے محض سوشل میڈیا کی اٹکھیلیوں کے لیے بلاتبصرہ یوں ہی چھوڑ دیا جاتا۔
اس حوالے سے ایک ابہام موجود ہے اور خود فوج کے قریبی حلقے اس ابہام کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی قید میں اگر کوئی پائلٹ موجود نہ بھی ہو تب بھی اسرائیل کی بھرپور فوجی اور اخلاقی امداد بھارت کو حاصل ہے۔ کنٹرول لائن پر باڑ سے حفاظت اور چوکسی کا نظام، پیلٹ گن سے اس کا بے رحمی اور شدت سے استعمال سب اسرائیل ہی کی مرہون منت ہے۔ اس طرح کسی متوقع جنگ میں بھارت کا اسرائیل کے ساتھ مل کر حملہ آور ہونا کوئی تصوراتی اور افسانوی بات نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے میزائلوں کے مار کرنے کی صلاحیت جہاں محدود سے محدود تر کرتا رہا تاکہ بھارت کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو ناکام بنایا جا سکے وہیں وہ اپنے میزائلوں کی صلاحیت اس حد تک بڑھائے رکھنا چاہتا تھا کہ کم از کم یروشلم اور تل ابیب ان کے نشانے پر آسکیں۔ دوہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے شاہین میزائل نے پاکستان کی یہ ضرورت پوری کردی۔
کہا جاتا ہے کہ ستائیس فروری کو بالاکوٹ واقعے کے فوراً بعد پاکستان نے شاہین میزائلوں کا رخ تل ابیب کی طرف کیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو پورا یقین اور اطلاع رہی ہوگی کہ بھارت کی طرف سے ہونے والا حملہ تنہا بھارت کا نہیں ہو گا۔ اسی طرح کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن پاکستان میں انتشار کی صورت میں بھارتی فوج کا سندھ اور کنٹرول لائن کی طرف سے اندر داخل ہو کر پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا جنگی منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان نے ایٹمی وارہیڈز کے حامل ایسے کم فاصلے تک مار کرنے والا نصر میزائل تیار کیا جس کے ذریعے اپنی حدود میں در آنے والی جارح فوج پر ایٹمی حملہ کرکے اسے تہس نہس کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کسی دوسرے ملک پر ایٹمی حملے میں پہل کے الزام سے بھی بچ جاتا ہے اور حملہ آور فوج نشان عبرت بھی بن جاتی ہے۔ یہ بہرحال ایک خودکش حملے جیسی انتہائی صورت حال ہی ہو سکتی ہے اور تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت میں اس آپشن کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب پاکستان اور بھارت کے اوپر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور پاکستان خم ٹھونک کر بھارت کے مقابلے میں کھڑا ہورہا ہے غوری میزائل کے تجربے کے پیغام کو بھارت میں صحیح تناظر میں سمجھا اور جانا گیا۔ بھارتی میڈیاکی آہ وزاری بتارہی ہے کہ غوری میزائل ٹھیک نشانے پر جا لگا ہے۔ بھارت اس وقت دنیا کو یہ باور کرارہا ہے کہ خطے میں کوئی بے چینی اتھل پتھل اور جنگی صورت حال نہیں بلکہ یہ صرف پاکستان کا کھڑ اکیا ہوا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نہ صرف جنگ بلکہ ایٹمی جنگ کے خطرے کا احساس دلاکر دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کروا رہا ہے۔ بھارت جنگ کی بھرپور تیاری تو کر رہا ہے مگر دنیا کو یہ احساس نہیں ہونے دے رہا کہ خطے میں جنگ کا امکان بھی ہے پاکستان جنگ کی جوابی تیاری بھی کرر ہا ہے اور دنیا کو اس معاملے کی سنگینی کی طرف متوجہ بھی کر رہا ہے۔ دونوں ملک اپنے اپنے انداز سے اس سمت میں بڑھ رہے ہیں مگر جس سمت یہ سفر جاری ہے اس میں جنگ ہی واحد آپشن بنتا جارہا ہے۔