روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

287

بغاوت کا مقدمہ اور احتجاجی مہم
اپریل ۱۹۶۳ء کے آخری ہفتے میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے ۳۵ نمائندوں پر مشتمل ایک اجلاس حسین شہید سہروردی صاحب کی صاحبزادی بیگم اختر سلیمان کے مکان لکھم ہائوس کراچی میں ہوا۔ جمہوریت اور بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس میں شریک رہنمائوں پر اس ’جرم‘ میں بغاوت کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔گرفتار شدگان میں نوابزادہ نصر اللہ خان‘ شیخ عبدالمجید سندھی‘ محمود الحق عثمانی‘ میاں محمود علی قصوری‘ مولانا عبدالستار نیازی‘ عطاء اللہ مینگل‘ چودھری غلام محمد اور میاں طفیل محمد تھے‘ جنہیں ۱۵؍ مئی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ صدر ایوب خان اپنی قائم کردہ کنونشن لیگ میں شامل ہوگئے اور مارشل لا کے بعد جن سیاسی جماعتوں کو وہ لعنت قرار دیتے تھے اور ممنوع قرار دے کر ان پر پابندی لگاچکے تھے‘ انھی سیاسی پارٹیوں میں سے ایک مسلم لیگ کے لیڈروں اور موثر افراد کو توڑ کر ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے کنونشن مسلم لیگ قائم کرکے اس کے صدر بن بیٹھے۔جسٹس محمد منیر کی رہنمائی اور نوجوان وزیر ذوالفقار علی بھٹو کی رہنمائی میں یہ تھا
’نظریہ ضرورت‘ !
عائلی قوانین کی منسوخی کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد شدو مد سے جاری تھی۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عباس علی خان نے مسلم فیملی لاز آرڈیننس کی منسوخی کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کردیا۔ ۴؍ جولائی ۱۹۶۳ء کو مغربی پاکستان اسمبلی نے عائلی قوانین منسوخ کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی رائو خورشید علی خاں کی پیش کردہ قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی۔ لیکن ہوا یہ کہ ملک پر مسلط آمریت نے موقع پرست قومی اسمبلی کے اراکین مسلم لیگ کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملاکر‘ جماعت اسلامی کے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن مولانا عباس علی خاں کی پیش کردہ عائلی قوانین کی منسوخی کا بل مستر دکردیا۔
پابندیوں کے خلاف احتجاجی مہم
اظہار رائے پر ایوب خان کی حکومت ناروا اور غیر قانونی پابندیوں کے خلاف ’ایشیا‘ کے ایک کالم کو سنسر کردیا گیا۔ سیّد مودودیؒ نے اس موقع پر ایک بیان جاری کیاکہ پریس پر تازہ پابندیاں ملک کے وقار کو تباہ اور یہاں جمہوریت کے فروغ کو مسدود کردیں گی۔ جماعت اسلامی کے قیمّ میاں طفیل محمد نے جماعت اسلامی کی تمام شاخوں اور حلقہ ہائے متفقین کو ایک گشتی مراسلے کے ذریعے ہدایت کی کہ وہ پاکستان کے تمام شہروں بلکہ قصبوں اور محلوں میں اجتماعات اور عام جلسے منعقد کرکے اخبارات پر عائد پابندیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور شہریوں کے مختلف طبقے صدر پاکستان‘ گورنروں اور اسمبلیوں کے اسپیکروں کو احتجاجی مراسلے لکھیں۔
(جاری ہے)