سرسبز زندگی کے لیے……!!

471

میں حیرانی سے دیکھتی ہوں اُن پودوں کو جن کو میں نے اپنے کمرے کے ساتھ والی گیلری میں رکھا ہوا ہے۔ اُن کے گملوں کو مجھے ہر دو تین دن بعد گھمانا پڑتا ہے کہ اُن کے سرسبز رنگ میری طرف پر ہوجائیں اور مجھے اچھی طرح نظر آئیں۔ یہ اس لیے کہ انہیں اس طرح سرسبز دیکھنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ لیکن وہ ہر دو تین بعد اپنا رُخ تبدیل کرلیتے ہیں۔ اپنے سرسبز چہرے میری طرف سے موڑ کر سورج راجا کی جانب کرلیتے ہیں۔ میں جھنجھلا جاتی ہوں۔ لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔ انہیں تو سرسبز رہنا ہے جس کے لیے سورج راجا سے روشنی درکار ہے۔ اس کی طرف اپنے چہرے رکھنا ان کی مجبوری ہے، ضرورت ہے، بلکہ زندگی ہے۔ خالق حقیقی نے انہیں یہ ہی حکم دیا ہے جس کی بجا آوری انہوں نے اپنے لیے لازم رکھی ہے۔ میں سوچتی ہوں بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے چہرے، اپنے دل کس کی طرف یکسو رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟؟ کیا ہم جانتے ہیں؟؟۔ یقینا جانتے ہیں۔ کلمہ طیبہ کی صورت میں اس کا اقرار ہم کرچکے ہیں۔ لیکن یہ جاننا اور جان کر اقرار کرنا ہمارے عمل میں اُتر نہ پایا۔ یوں یہ پودے ہم سے زیادہ ہوشیار ہیں عقل مند ہیں۔ آخر ہماری یکسوئی بھی تو ہماری تازگی کے لیے لازم ہے۔ ہمارے دلوں میں یکسوئی نہیں، ایک رب کی خوشنودی کے بجائے بے شمار دوسرے لوگ ہیں جن کی خوشنودی میں رب کی رضا ہم بھول بیٹھتے ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر ہمارا اپنا دل اور اس کی خواہشات جن کے پیرو بن کر دل مردہ ہوجاتے ہیں اور زندگی صحرا بن جاتی ہیں۔ لیکن ہم مصنوعی سرسبزی کو اپنا کر مگن رہتے ہیں۔ کبھی جو دل کے اندر سے آواز اُٹھتی ہے کہ سچی خوشی کہاں ہے؟ خزاں کا موسم اور انداز کیوں اُتر آیا ہے؟ زندگیوں میں۔ خوشیوں کے جگنو اور ستارے… سب نے گویا ایک مصنوعی چمک اپنا رکھی ہے کہ دل خوشیوں میں بھی خوش نہیں ہوتا۔ ایسا اسی لیے ہے کہ ہم نے رب کی طرف یکسوئی کو کل وقتی نہیں جزوقتی اپنانا کافی سمجھا ہے، یوں اطمینان و سکون ہم سے روٹھ گیا۔ خوشیوں کے رنگ پھیکے پڑ گئے، اب روٹھے کو منانے کے لیے کرنا صرف اتنا ہے کہ پوری عمر رب کی طرف اُس کی رضا اور خوشنودی کی طرف اِن سبز پتوں کی سی یکسوئی سے متوجہ رہنا ہے۔ اور اگر کوئی اس یکسوئی میں میری طرح خلل ڈالنے کی کوششیں کرے تو اپنے آپ سے صرف اپنا کہنا ہے کہ
اک اور ہی زندگی کی خاطر
اک عمر کو میں نے تج دیا ہے
لیکن حال یہ ہے کہ سرسبزی کے دشمن ہم خود ہیں۔ یہ جو پلاسٹک کا استعمال اس قدر تیزی سے بڑھا ہے۔ سبزہ منہ چھپاتا پھر رہا ہے ہر گلی کے نکڑ پر ایک پلاسٹک اور کچرے کا پہاڑ دھرا ہے جس کے خاتمے کے لیے جو کوششیں بھی کی جاتی ہے بڑی بے دلی سے کی جاتی ہے اور اضافہ دل لگا کر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اُس کی بڑھوتری دن دگنی اور رات چوگنی ہورہی ہے۔ایک حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ انسانی جسم میں مائیکرو پلاسٹک شامل ہے۔ کیوں کہ ہر انسان اوسطً ہر ہفتے پانچ گرام پلاسٹک کھاجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر پلاسٹک ہر پاکستانی کی غذا کا حصہ بن جاتا ہے۔ پلاسٹک کے معاملے میں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی صورت حال اچھی نہیں ہے لیکن پاکستان میں تو بہت زیادہ تشویشناک ہے۔ یہ صرف زمین ہی کو برباد نہیں کررہا بلکہ سمندر میں بھی زہریلا مواد بنارہا ہے جہاں سمندری مخلوق آبی حیات ہماری بے احتیاطی، کاہلی اور سہولت پسندی کے ہاتھوں پریشان ہے۔
پاکستان میں پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے کے رجسٹرڈ آٹھ ہزار کارخانے نہیں اور ان کی یومیہ پیداوار پانچ سو کلو گرام ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں روزانہ 55 ملین پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ اور ہر سال ان کے استعمال میں 15 فی صد اضافہ ہورہا ہے۔ وہ ممالک جن کو پلاسٹک کے استعمال میں ہونے والے صحت کے نقصانات کا خیال ہے وہ پلاسٹک کو کھانے کی اشیا کے لیے کم سے کم استعمال کی طرف آرہے ہیں۔ خیال رہے کہ پلاسٹک سے نکلنے والے کیمیکل انسانوں میں موٹاپا بڑی بیماریاں اور بانجھ پن پیدا کرتے ہیں۔ کیا مشکل ہو اگر ہم کھانے کے لیے پلاسٹک کے برتن اور تھیلیاں استعمال کرنا ترک کرکے چینی، کاغذ اور سب سے بڑھ کر مٹی کے برتن استعمال کرنا شروع کردیں۔ یہ کچھ عشروں قبل ہی کی بات ہے نا کہ مٹی کے برتن
جن میں دیگچیاں، کٹورے، گھڑے اور صراحیاں عام استعمال کی جاتیں تھیں۔ ان کے استعمال اور خریدوفروخت سے ایک پرانی صنعت دوبارہ زندہ ہوگی، ہزروں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں پلاسٹک کے جن کو قابو کرنے میں مدد ملے گی۔پلاسٹک کی تھیلیاں کھانے پینے کی چیزوں کا استعمال کرنا ترک کرکے اسٹیل، تام چینی، شیشے اور کاغذ کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پانی کی بوتلوں کے علاوہ شیمپو، میک اپ کا سامان، شیونگ جیل، پیسٹ اور دیگر اشیا میں بھی پلاسٹک استعمال کیا جاتا ہے جو انتہائی مضر صحت ہوتا ہے اور جسم کے اندر داخل ہوتا رہتا ہے۔ پلاسٹک میں موجود ایک کیمیکل ’’فیول‘‘ انتہائی خطرناک ہے، یہ کیمیکل دل اور جگر کے امراض کے علاوہ خون میں شکر کی مقدار بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ پلاسٹک کے برتن مائیکرویو میں استعمال نہیں کرنے چاہئیں اور نہ ہی ان میں اور پلاسٹک کی تھیلیوں میں گرم کھانا ڈالنا چاہیے، کیوں کہ حرارت اور کیمیکل مل کر خطرناک کیمیائی مواد پیدا کرتے ہیں۔ البتہ شیشے، پتھر، اسٹیل، ایلومونیم اور مٹی کے برتنوں کے استعمال کے دوران ایسا کوئی خدشہ نہیں ہوتا۔ بچوں کی بوتلوں کے لیے فیڈر تک کی خریداری میں احتیاط کرنی چاہیے۔
کچرے کا جائزہ لیں ایک بڑی تعداد پلاسٹک کی ہوتی ہے۔ پلاسٹک کی تھیلیاں زمین کے لیے ناسور بلکہ کینسر ہیں، کیوں کہ انہیں تلف ہونے میں چار سو سے پانچ سو سال تک کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ پلاسٹک کے تھیلوں کے بجائے کاغذی تھیلیوں کا استعمال کیا زیادہ ماحول دوست ثابت ہوگا؟ اس کا جواب ’’نہیں‘‘ ہے۔ کیوں کہ کاغذی تھیلوں کی پیداوار کے لیے جنگلات کو کاٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو تیار کرنے کے عمل میں زیادہ زہریلے کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں۔ کاغذی تھیلے پلاسٹک کے مقابلے میں زیادہ وزن کے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی ترسیل کے لیے زیادہ توانائی چاہیے ہوگی۔ البتہ ری سائیکلنگ کے ذریعے انہیں بنانا سود مند ہوگا۔ تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ کاٹن یا کپڑے کے تھیلے سب سے زیادہ مناسب اور بہتر ہیں۔ کاغذ کے تھیلوں کو تین بار پلاسٹک کے تھیلوں کو چار بار اور کپڑے کے تھیلے کو 131 بار دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا پلاسٹک کی تھیلیوں اور تھیلوں کے بجائے کپڑے کے تھیلوں اور کھجور سے بنی ٹوکریوں کا رواج ڈالنا سب سے زیادہ ماحول دوست ہے۔ یقین رکھیں کہ انہیں لٹکا کر جاتے ہوئے آپ پرانے زمانے کے نہیں لگیں گے بلکہ اپنے ماحول اور مٹی کے دوست سمجھیں جائیں گے۔ اور جیسے جیسے دوستوں میں اضافہ ہوگا یہ سب فیشن سمجھا جانے لگے۔ اور آنکھوں کو بھی بھلا لگے گا۔ کپڑے کے نت نئے اور خوبصورت تھیلے گھویلو صنعت کو رواج دیں گے، بیروزگاری کا بھی کچھ نہ کچھ علاج ٹھیرے گا۔ سو آئیے ہم مل کر پلاسٹک کے جن کو قابو کرتے ہیں۔