کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر مودی حکومت سے جواب طلب

416

نئی دلی(خبر ایجنسیاں) بھارتی چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کیخلاف دائر درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے مودی سرکار سے جواب طلب کرلیا۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کی عدالت عظمیٰ میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت ہوئی، بھارتی چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے حکومت کو نوٹس جاری نہ کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مرکز کو جواب داخل کرنے کا حکم دے دیا۔بھارتی چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر کی موجودہ کشیدہ صورت حال سے متعلق تمام درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے 5 رکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے اور اکتوبر سے ان درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہو گا جس میں مودی سرکار کو اپنا جواب داخل کرانا ہوگا۔قبل ازیں وفاق کے نمائندے توشر میٹھا نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ درخواستیں سیاسی اختلاف رائے کی وجہ سے دائر کی گئی ہیں، سرحدوں پر موجود تنائو کو مدنظر رکھتے ہوئے ان درخواستوں کو خارج کیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت فیصلہ کرچکی ہے اور اب اسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔مودی حکومت نے آئین میں حاصل کشمیر کو خصوصی حیثیت اور نیم خود مختاری دینے والے آرٹیکلز 375 اور 35-اے کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھاری اکثریت سے منسوخ کرادیا ہے جس کے بعد سے کشمیر میں تاحال صورت حال کشیدہ اور کرفیو نافذ ہے۔ سپریم کورٹ میں اس اقدام کیخلاف مختلف افراد کی جانب سے 10 سے زائد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر کانگریس پارٹی کے رکن تحسین پونے والا کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس ارون مشرا، جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس اجے رستوگی نے کشمیر کی صورت حال کو حساس قرار دیتے ہوئے درخواست پر سماعت کو دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا تھا جب کہ سپریم کورٹ نے بھی کچھ درخواستوں کو نامکمل قرار دیتے ہوئے ازسرنو درخواستیں دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔سپریم کورٹ جن افراد کی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے ان میں انورادھا بھسین کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رہنما سیتا رام یچوری، کانگریس کے رہنما تحسین پوناوالا، کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور سابق سرکاری ملازم شاہ فیصل کے علاوہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبعلم رہنما شہلا رشید بھی شامل ہیں۔ان دس کے قریب درخواستوں میں جہاں انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے وہیں خطے میں اس فیصلے کی وجہ سے جاری کرفیو اور ذرائع مواصلات کی بندش کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہونے کی بات بھی کی گئی ہے۔درخواستوں کی سماعت کے دوران انڈین چیف جسٹس نے کہا ہے کہ یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری کا معاملہ ہے۔عدالت نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص ملک کے کسی بھی حصے کا سفر کرنا چاہے تو اسے اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ عدالت نے ایک درخواست گزار محمد علمی سید کو اپنے والدین سے ملاقات کے لیے اننت ناگ جانے کی اجازت بھی دی اور حکومت سے انھیں تحفظ فراہم کرنے کو کہا ہے۔اس کے علاوہ عدالت نے سیتا رام یچوری کو بھی اپنی جماعت کے اس رکن اسمبلی سے ملاقات کی اجازت دی جو مبینہ طور پر کشمیر میں زیرِ حراست ہیں۔ تاہم چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیتا رام کسی اور مقصد کے لیے نہیں صرف اپنی جماعت کے رہنما سے ملنے کشمیر جا سکتے ہیں۔