جنوبی ایشیا کا نیا گیم پلان

632

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا، نہ تو وہ ایک دن کا فیصلہ تھا اور نہ ہی یکطرفہ۔ اس کے لیے مہینوں پہلے ہر محاذ پر تیاری کی گئی جس کا علم پاکستان کے حساس اداروں سمیت سب ہی کو تھا۔ اس پر پاکستان سمیت پوری دنیا کا وہی نپا تلا ردعمل تھا جس کی ہدایت کی گئی تھی۔ پہلے دن ہی سے پاکستان کو بتادیا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی پر صرف اور صرف زبانی توپیں ہی چلانی ہیں۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس صورتحال کو ایسے ہی رکھا گیا کہ جیسے سب کچھ معمول پر ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو 20 روز سے زاید گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک پاکستان نے بھارت کے خلاف کسی ایسے اقدام سے گریز کیا ہے جس سے یہ شائبہ بھی جائے کہ پاکستان بھارت کے خلاف کسی جوابی کارروائی کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ بھارت اسی طرح سے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے اپنی تجارتی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کی فضائی حدود بھی اسی طرح سے استعمال کررہا ہے جیسے دوستانہ روابط کے دور میں۔ کرتارپور کا نیا راستہ بھی کھولنے کی اسی طرح سے تیاریاں ہیں اور بھارت کی جانب سے پاکستان میں سیلابی صورتحال پیدا کرنے کو بھی اسی طرح معمول کے مطابق لیا گیا ہے۔
یہ تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ مودی اور عمران نیازی دونوں عوام کی رائے کی بنیاد پر برسراقتدار نہیں آئے ہیں۔ دونوں ہی کو برسراقتدار لانے کے لیے پہلے ماحول بنایا گیا اور پھر انہیں سیلیکٹڈ وزیر اعظم کے منصب پر فائز کردیا گیا۔ دونوں ہی کو جو اسکرپٹ دیا گیا، اس کے مطابق انہوں نے اپنے اپنے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ دونوں ہی کی ذہنی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی ملک کی باگ ڈور آزادانہ سنبھال سکیں۔ دونوں ہی جب اسٹیج پر آتے ہیں تو قہقہوں کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ دونوں ہی کے نزدیک اس امر کی چنداں اہمیت نہیں ہے کہ انہوں نے کہا کیا تھا اور عوام سے کیا وعدے کیا تھے اور ان کا عمل کیا ہے۔ دونوں ہی محض اقتدار میں رہنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ کیا اسے بھی محض اتفاق کہا جائے گا کہ دونوں جانب فوج، عدلیہ اور حکومت ایک صفحہ پر ہیں اور حکومت کے ہر فیصلے پر فوج کی تصدیقی مہر ثبت ہوتی ہے اور عدلیہ فیصلے کرنے سے قبل حکومت کی جانب ضرور دیکھتی ہے۔
نیو ورلڈ آرڈر یا نئے عالمگیر شیطانی نظام کے دیے گئے بلیو پرنٹ کے مطابق اس کے ڈھیلے ڈھالے نظام کا باقاعدہ اعلان 2030 میں کیا جائے گا اور 2050 تک اسے پوری دنیا میں نافذ کردیا جائے گا۔ اس سے قبل دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ اس کے لیے پہلے سے موجود ممالک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں مزید تقسیم کیا جائے گا اور پھر اس کے بعد براعظموں کی جگہ دس انتظامی یونٹ تشکیل دیے جائیں گے۔ اسی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت جنوبی ایشیا میں بھی توڑ پھوڑ مطلوب ہے۔ پہلے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی کے ذریعے یہاں پر آزادی کی نئی روح پھونک دی گئی۔ اس کے بعد بھارت کا جنوبی پہاڑی علاقہ جس میں ہماچل پردیش بھی شامل ہے، کو الگ کرکے چین کے تحت خودمختار حیثیت دے دی جائے۔ چند برس قبل ہی چین نے بھوٹان کے علاقے ڈوکلام پر قبضہ کیا ہے۔ یہاں سے وہ بھارت سے ہماچل پردیش کو آنے والی واحد تنگ سڑک کو بلاک کرسکتا ہے جو عرف عام میں بطخ کی گردن کہلاتی ہے اور یوں بھارت کا زمینی رابطہ آن واحد میں اپنے جنوبی پہاڑی علاقے سے کٹ جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی جنوبی ریاستوں ناگا لینڈ، جھاڑ کھنڈ، میزورام، آسام اور منی پور میں بھی آزادی کی تحریکیں ایک دم زور پکڑ جائیں گی جبکہ شمال میں کشمیر اور خالصتان پہلے سے ہی سلگ رہے ہیں۔
پاکستان کی صورتحال بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ 2022 میں پاکستان کو سی پیک کے تحت حاصل کیے گئے قرضوں کی قسط ادا کرنی ہے۔ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس ٹوٹا بارہ آنے والے محاورے کے مصداق سی پیک سے پاکستان کو حاصل تو کچھ ہوا نہیں البتہ یہ غیرمعمولی شرح سود پر حاصل کیے گے بھاری قرض تلے ضرور دب گیا ہے۔ ان بھاری قرضوں کی نادہندگی دیوار پر لکھی صاف نظر آرہی ہے جس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو چین نے سری لنکا کی نادہندگی کی صورت میں ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ پر قبضہ کرکے، تاجکستان کی جانب سے نادہندگی کی بناء پر اس کے ایک ہزار مربع کلومیٹر کے سرحدی علاقے پر قبضہ کرکے، مالدیپ کی نادہندگی کی صورت میںاس کے 16 جزائر پر قبضہ کرکے کیا۔ اس وقت چین افریقی ملک زیمبیا کے واحد بین الاقوامی ائرپورٹ لوکاسا ائرپورٹ پر قبضے کی شرائط طے کرنے میں مصروف ہے۔ چین کی نگاہ پاکستان کے شمالی علاقوں گلگت اور بلتستان کے علاوہ گوادر کی بندرگاہ پر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ادارے کو تباہ کرنا انتہائی آسان کام ہے۔ بس اس کا سربراہ کسی نااہل لالچی فرد کو مقرر کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد سارا عمل خودکار طریقے سے سرانجام پاجاتا ہے۔ مذکورہ نااہل شخص اپنے سامنے کسی اہل شخص کو برداشت نہیں کرتا کہ اس بناء پر وہ سب کے سامنے بے نقاب ہوجاتا ہے۔ اس کے گرد اسی کے جیسے نااہل اور لالچی افراد خوشامدیوں کے روپ میں جمع ہوجاتے ہیں اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک کامیاب ادارہ دیوالیہ ہو کر کتابوں کی زینت بن جاتا ہے۔ یہی آزمودہ نسخہ پاکستان اور بھارت دونوں میں بیک وقت مودی اور عمران نیازی کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے۔ اب دونوں ممالک معاشی طور پر شدید عدم استحکام کا شکار ہیں اور اپنے آقاؤں کے سامنے چوں چراں کی گنجائش ہی نہیں رکھتے۔ انہیں آقاؤں کے دیے گئے املا پر حرف بہ حرف عمل کرنا ہے اور نہ کرنے کی صورت میں نشان عبرت بنادیے جائیں گے۔
جوں جوں وقت گزر رہا ہے، نئے عالمگیر شیطانی نظام کے قیام کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے۔ اسی لیے عالمی سطح پر تبدیلیاں بھی تیزی کے ساتھ رونما ہورہی ہیں۔ ان تبدیلیوںکی زد میں صرف جنوبی ایشیا ہی نہیں ہے۔ ایسی ہی تبدیلیاں آپ خطہ عرب کے علاوہ برطانیہ اور امریکا میں بھی جلد ہی دیکھیں گے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔