ٹنڈوالٰہیار، سجاولبارش کے جمع پانی کی عدم نکاسی،بیماریوں میں اضافہ

404

ٹنڈوالٰہیار، سجاول(نمائندگان جسارت) ٹنڈوا لہیار شہر کی مختلف کالونیوں اور محلوں میں تاحال بارش کا پانی جمع ہے جبکہ صفائی عملہ غائب، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، مکھی مچھر کی بہتات، بیماریوں میں اضافہ، انتظامیہ سب ٹھیک کا راگ الاپ رہی ہے۔ ٹنڈوالہٰیار شہر کی مختلف کالونیوں اکرم کالونی، خواجہ اجمیر کالونی، ابراہیم کالونی، غریب نواز کالونی، مسلم کالونی سمیت دیگر کالونیوں میں تاحال بارش کا پانی تالاب کی شکل میں جمع ہے جبکہ میونسپل کمیٹی ٹنڈوالہٰیار کی نا اہلی اور لاپروائی کے باعث صفائی عملہ بھی غائب ہوگیا، جس کی وجہ سے بکیرہ روڈ، چمبڑ روڈ، منصور کالونی، نیو مدینہ کالونی، اکبری کالونی، گلشن حمید کالونی، مسلم کالونی سمیت دیگر کالونیوں میں صفائی کا نظام درہم برہم، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، جس کی وجہ سے تعفن اور مکھی و مچھر کی بہتات سے علاقہ مکینوں کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ اس کے علاوہ گندگی کے باعث ملیریا، گیسٹرو، جلد کی بیماری، گلے کی بیماری، آنکھوں کے امراض کے علاوہ دیگر موذی امراض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے شہریوں کی بار بار شکایت کے باوجود انتظامیہ کی کان پر جوں نہیں رینگ رہی ،سیاسی آشیرواد سے وائٹ کالر سوئپر بھرتی ہونے کی وجہ سے صفائی عملے کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں جبکہ صفائی عملہ با اثر افراد کی گلیوں میں صفائی کرتا نظر آتا ہے، میڈیا نمائندگان سے شہزاد جویو ، سردار کشمیری ، عمران عالم کے کے، سلیم خلجی، ارشد متین خانزادہ سمیت دیگر شہریوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ منتخب نمائندگان ووٹ لینے کے لیے تو آتے ہیں، اس کے بعد عوام کو بھول جاتے ہیں اور ان کا پورا دھیان مال بنانے میں ہوتا ہے عوام کے بنیادی مسائل بھی نظر نہیں آتے ،شہریوں نے وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر بلدیات سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹنڈوالہٰیار شہر کے صفائی کے نظام میں بہتری لائی جائے اور مکھی مچھر مار اسپرے بھی کرائے جائیں۔ سجاول دو ہفتے قبل شروع ہونے والی شدید بارش کے بعد ضلع سجاول میں تاحال نشیبی علاقوں میں پانی کھڑاہے اور ان کی نکاسی کا انتظام نہ ہوسکاہے اور کھڑے گندے پانی میں مچھروں کی افزائش سے ضلع بھرمیں ملیریانے وبائی صورت اختیارکرلی ہے، جبکہ ڈائریا، گیسٹرو، جلد اور پیٹ کے دیگرامراض کے مریضوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ محکمہ صحت، ضلعی انتظامیہ، ضلع کونسل اور منتخب نمائندے گہری نیند میں، عوام پریشان۔ ضلع بھرکے چھوٹے بڑے نجی وسرکاری اسپتالوں میں متاثرمریضوں کی بڑی تعداد علاج کے لیے پہنچے ہیں ان مریضوں میں بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ ٹائیفائیڈ، بخار، سینے، پیٹ اور جلد کے امراض میں مبتلا سیکڑوں مریض علاج کے لیے پریشان ہورہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں معمولی ڈسپوزایبل ملیریا ٹیسٹ کٹ بھی موجود نہیں بلکہ مائیکرو اسکوپ ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔ سول اسپتال سجاول میں واقع ملیریا ٹیسٹ سینٹر پر رواں ماہ میں پچیس فیصد ٹیسٹ پازیٹو آنے کی تصدیق ہوئی ہے، جبکہ ایمرجنسی اور نجی اسپتالوں میں روزانہ سیکڑوں مریضوں کے ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے، تاہم ان میں بیشتر کو ملیریا کے مریض قرار دے کر علاج کیا جارہا ہے۔ سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد کو صرف ایک ڈاکٹر اور ایک ڈسپنسر ہونے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ادویات کی قلت کی بھی شکایات ہیں، شعبہ ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کے لواحقین نے شکایات کی ہے کہ ٹائفائیڈ، بخار سمیت دیگر بیماری میں مبتلا بچوں کے لیے ہنگامی طور پر نیبولائزر، وینٹولین سمیت دیگرادویات کے لیے منتیں کرنی پڑ رہی ہیں اور مریضوں کو ریفر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ادھر ملیریا کنٹرول پروگرام کا ضلع بھر میں نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈسٹرکت ہیلتھ افسر کے ماتحت ملیریا پروگرام کے ضمن میں ملنے والی مچھر مار ادویات کی بڑی مقدار مبینہ طور پر فروخت کی جارہی ہے جبکہ مچھر دانی اور دیگر حفاظتی اشیا بھی متاثرہ مریضوں میں تقسیم نہیں کی جارہی ہیں۔ مچھروں کی بہتات کی وجہ سے علاقے میں ڈینگی پھیلنے کے قوی امکانات موجود ہیں، تاہم علاقے میں ڈینگی ٹیسٹ کی سہولت نہ ہونے سے ایسے مریضوں کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے، نہ ہی ٹیسٹ کا انتظام کیا گیا ہے۔ حالیہ بارشوں کے بعد سرکاری سطح پر ہنگامی حالات کے باوجود سندھ حکومت پانی نکاسی کے کام میں ناکام ثابت ہوئی ہے جبکہ محکمہ صحت کی جانب سے بھی ملیریا اور ڈینگی جیسے امراض کے لیے حفاظتی اقدامات ندارد ہیں۔ مچھروں کی بہتات کی وجہ سے ضلع بھر کے عوام ملیریا میں مبتلا ہیں۔ شہریوں نے اپیل کی کہ ضلع سجاول میں فوری طور پر ملیریا کنٹرول پروگرام کو فعال کرکے اسپرے کرایا جائے۔ واضح رہے کہ ضلعی انتظامیہ محکمہ صحت ضلع کونسل چیئرمین اور منتخب نمائندے صرف میٹنگ میں فوٹو سیشن کراتے نظر آتے ہیں، تاہم عملی اقدامات کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔