سندھ میں حکومت کہاں ہے ؟

451

سندھ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز ہی موجود نہیں ہے ۔ اپریل 2008 سے پیپلزپارٹی سندھ میں مسلسل برسراقتدار ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سندھ میں ہی سب سے زیادہ پالیسیوں کا تسلسل ہوتا اورعوام کو ترقی کے ثمرات دیکھنے اور برتنے کو ملتے ۔ مگر صورتحال اس کے برعکس ہے اور یہاں پر لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا گیا کہ اس کی مثال شاید ہی ملک کے کسی اور حصے سے مل سکے ۔ سندھ میں بد انتظامی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کی حکومت اہم عہدوں پر تقرریاں ہی نہیں کرپاتی ہے کہ ادارے درست طریقے سے کام کرسکیں ۔ ہر عہدے پر عارضی طور پر کسی نااہل شخص کو چارج دیا ہوا ہے جس کا نتیجہ وہی نکل رہا ہے جو ایسی حالت میں ہونا چاہیے ۔ سندھ کے تعلیمی بورڈز ، یونیورسٹیاں مستقل سربراہوں اور اہم افسران سے محروم ہیں ۔ ہر کچھ دن کے بعد تلاش کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے اور معاملہ کہیں غتر بود ہوجاتا ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ کی نااہلی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پورے صوبے میں تعلیمی نظام اور تعلیمی معیار دونوں ہی تباہی کا شکار ہوگئے ہیں ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال صحت کے شعبے کی ہے جہاں پر کم تعلیمی قابلیت کے حامل نااہل افراد کو چارج دے کر اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کا سربراہ لگادیا گیا ہے ۔ اب کسی اسپتال میں نہ تو دوا دستیاب ہے اور نہ ہی مریض کوئی ٹیسٹ کرواسکتے ہیں کہ قیمتی مشینیں معمولی خرابی کی بناء پر اسکریپ ہورہی ہیں ۔ سید مراد علی شاہ کہنے کو جوان بھی ہیں اور کراچی کی معروف انجینئرنگ یونیورسٹی این ای ڈی سے فارغ التحصیل بھی مگر ان کے زیر تحت سندھ حکومت کے وہی لیل و نہار ہیں جو پہلے تھے ۔ سندھ حکومت کے بارے میں یہ خبریںعام ہیں کہ اصل حکومت بلاول ہاؤس سے چلائی جاتی ہے اور وزیر اعلیٰ سمیت ساری بیوروکریسی اپنی نوکری بچانے کے لیے بلاول ہاؤس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں ہر طرح کی بدانتظامی اور کرپشن عروج پر ہے اور یہ سب کرنے والوں کو کسی کا کوئی خوف نہیں ہے کہ وہ اوپر والوں کو ان کا حصہ باقاعدگی سے پہنچا رہے ہیں ۔ اب تو سندھ کے عوام کی آنکھیں کھل جانی چاہییں اور انہیں ان الیکٹبلز سے جان چھڑالینی چاہیے ۔ اگر سندھ کے عوام نے اب بھی ان سے جان نہیں چھڑائی تو پھر انہیں اپنے صوبے میں بہتری لانے کے لیے کسی معجزے کا انتظار کرنا چاہیے ۔ یہ الیکٹبلز تو وہی کریں گے جو ان کا ماضی ہے ۔صرف لاڑکانہ کے بلدیاتی فنڈز میں آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی جانب سے تقریبا 90 ارب روپے کی خورد برد ہی پورے سندھ کا حال بتانے کے لیے کافی ہے ۔کراچی ، حیدرآباد، نوابشاہ ، لاڑکانہ ، دادو، خیرپور، سکھر غرض سندھ کے کسی بھی شہر کو دیکھ لیں ، اندازہ ہوجاتا ہے کہ سندھ میں مسلسل تین دفعہ سے برسراقتدار پیپلزپارٹی کو اس صوبے سے کتنی دلچسپی ہے ۔ سندھ میں حکومت میں شامل وہ کون سا فرد ہے جس پر کرپشن کا الزام نہیں ہے ۔ یہ درست ہے کہ اب تک کسی پر بھی یہ الزام ثابت کرکے انہیں سزا نہیں دی جاسکی ہے مگر یہ بھی حکومت کا کمال ہے کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے سامنے برآمد ہونے والی شراب زیتون کے تیل میں تبدیل ہوگئی ۔