چور مچائے شور

449

کراچی میںبلدیاتی نظام کا بیڑا غرق کرنے کے ذمے داران نے آ ج کل چور مچائے شور والا طریقہ اختیار کر رکھا ہے ۔ مصطفی کمال وسیم اختر کو چور کہہ رہے ہیں اور وسیم اختر مصطفی کمال کو چائناکٹنگ والا کہہ رہے ہیں ۔روزانہ اخبارات کے ذریعے دونوں یہ تاثردینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم بلدیہ اور کراچی کے حقیقی رکھوالے ہیں حالانکہ میئر وسیم اختر کے بارے میں تو کسی تحقیقات کی ضرورت نہیں ۔ کراچی کی ایک ایک گلی ، سڑکیں ، گٹر، سیوریج کا نظام اور پانی کا نظام سر چڑھ کر بولنے والا جادو بنا ہوا ہے ۔ مصطفی کمال صاحب کا قصہ پرانا ہو گیا اس لیے وہ بڑھ بڑھ کر بول رہے ہیں لیکن چائنا کٹنگ ایسا تحفہ ہے جو ان ہی کے دور میں شروع ہوا اور دور ختم ہو گیا ، چائنا کٹنگ آج بھی جاری ہے ۔ 12 مئی کے سانحے کے وقت وسیم اختر مشیر داخلہ تھے۔بلدیہ ٹائون فیکٹری کے سانحے کے وقت بھی مشیر داخلہ تھے اور سٹی ناظم مصطفی کمال تھے ۔ کراچی کے بلدیاتی اداروں میں بھرتیاں ان دونوں نے اپنے اپنے ادوار میں کیں ۔ دونوں نے مل کر لوٹ مار اور نظام کو تباہ کیا ،متحدہ کے گورنر عشرت العباد ان کی سر پرستی کرتے رہے ۔ پولیس افسران چیخ اُٹھے کہ جب بھی ہم کسی جرائم پیشہ کو پکڑتے ہیں گورنر ہائوس سے فون آ جاتا ہے ۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ایسا اعتراف کرنے والا پولیس افسر اپنے عہدے پر بر قرار رہتا ہے اور گورنر ہائوس کے فون پر جرائم پیشہ لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے ۔ تیسرا کھلاڑی اس کھیل میں سندھ حکومت کو قرار دیا جانا چاہیے جس نے اپنے موجودہ اور سابق دور میں متحدہ کے ارکان اسمبلی کی موجودگی میں بلدیہ کراچی کے محکمے ایک ایک کر کے سندھ حکومت کے کنٹرول میں لے لیے ۔ اب تینوں ایک دوسرے پر کراچی کو تباہ کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں ۔ اس وقت ان کی حالت ان میراثیوں جیسی ہے جو جگتیں کرنے میں مصروف ہیں ۔ جس کو چور کہا جا رہا ہے یقیناً کہنے والے کو معلوم ہو گا کیونکہ وہ ان ہی کا ساتھی ہے ۔ اور جو کہہ رہا ہے وہ اس سے بڑا چور ہے کیونکہ اس کا کچا چٹھا پہلا چور کھول رہا ہے ۔ کراچی کے عوام اس سحر سے کب نکلیںگے ۔ لسانیت کا بھوت تواُتر چکا اب آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ووٹروں کی رجسٹریشن دیکھ کر اندازہ ہوگا کہ مہاجر ، سندھی اور پشتون بنیادوں پر بھی سیاست ہو گی لیکن کراچی کو سنبھالنے کی کسی میں خواہش نہیں ، یہ اعتراف بھی سامنے آ گیا کہ کراچی کی خدمت نعمت اللہ خان نے کی تھی۔