سری نگر بھارتی مظالم کیخلاف ہزاروں مظاہرین سڑکوں آگئے ،جھڑپیں پتھرائو متعدد زخمی

403
سری نگر: جمعے کو کرفیو توڑ کر احتجاج کرنے والے کشمیریوں پر قابض فوج شیلنگ کررہی ہے‘ چھوٹی تصویر میں اہلکار نہتے کشمیریوں کی تاک میں لگے ہوئے ہیں
سری نگر: جمعے کو کرفیو توڑ کر احتجاج کرنے والے کشمیریوں پر قابض فوج شیلنگ کررہی ہے‘ چھوٹی تصویر میں اہلکار نہتے کشمیریوں کی تاک میں لگے ہوئے ہیں

سری نگر(خبر ایجنسیاں)مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں مظاہرین کرفیو کے باوجود سڑکوں پر آگئے۔ جھڑپیں، پتھرائو، متعدد زخمی۔تفصیلات کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے علاقے صورہ میں احتجاجی مظاہرے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے علاقے صورہ میں نماز جمعہ کے بعد ہونے والے مظاہرے میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔بی بی سی کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے انڈین سکیورٹی فورسز کو پیلٹ گن اور آنسو گیس کے شیل فائر کرتے جبکہ مظاہرین کو سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرتے دیکھا گیا۔ان جھڑپوں میں متعدد افراد کوزخمی حالت میں بھی دیکھا گیا ہے۔بی بی سی نے بتایا کہ دوپہر ایک بجے سے لوگ مرکزی درگاہ پر نماز جمعہ کے لیے جمع ہونا شروع ہو گئے تھے جن میں مرد اور خواتین شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد اجتماع میں شریک افراد نے کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے بازی کی اور پھر پرامن مظاہرہ شروع کیا۔بی بی سی کے مطابق یہ مظاہرہ آغاز میں پرامن رہا لیکن اس مظاہرے کے راستے میں ایک گلی سے سکیورٹی فورسز کی جانب سے داخلے کی کوشش میں یہ مظاہرہ پرتشدد جھڑپ میں تبدیل ہو گیا اور نوجوانوں نے پولیس کو روکنے کے لیے پتھراؤ شروع کر دیا۔بی بی سی کا کہنا تھا کہ یہ جھڑپیں دو گھنٹے تک جاری رہیں۔ ان کے مطابق صورہ میں مقامی افراد نے مرکزی بازار میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کا داخلہ روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر کی جانب احتجاجی مارچ کی کال کی افواہ کے پیشِ نظر اس طرف جانے والے تمام راستوں کو بڑی رکاوٹیں لگا کر بند کیا گیا تھا۔دوسری طرف سرینگر کی مرکزی جامع مسجد درگاہ حضرت بل سے بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا کہ مقامی افرد کا کہنا ہے کہ آج یہاں نماز جمعہ کے کسی بڑے اجتماع کی اجازت نہیں دی گئی اور صرف مقامی افراد کو یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی جبکہ اس دوران لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔بی بی سی کے مطابق قدغنوں، پابندیوں اور بندشوں کے باعث گذشتہ تین ہفتوں سے عام زندگی معطل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند دنوں میں ان پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی لیکن جمعہ کو دوبارہ سے حکام کی جانب سے ان بندشوں اور پابندیوں میں سختی کی گئی ہے۔خیال رہے کہ یہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مسلسل تیسرا جمعہ ہے جب وادی کی مرکزی جامع مساجد اور خانقاہوں میں نماز جمعہ کے اجتماع کی اجازت نہیں دی گئی۔بی بی سی نے وادی میں موجود تاریخی جامع مسجد نوہٹہ سے بھی تفصیلات جاننے کی کوشش کی لیکن سکیورٹی فورسز نے انھیں وہاں فلم بندی اور رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں دی۔بی بی سی کا کہنا تھا کہ ذرائع مواصلات بند ہونے کے باعث ملنے والی اطلاعات کے مطابق وادی کشمیر کے دیگر علاقوں پلوامہ، اننت ناگ، شوپیاں، بارہ مولہ، کلگرام سمیت کپواڑہ میں مرکزی جامع مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات کی اجازت نہیں دی گئی۔حکومت کا کہنا ہے کہ سنیچر سے دوبارہ پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ انتظامیہ نے مظاہرین کو روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین کے دفتر کی طرف جانے والے پانچ میں سے چار راستے جمعرات کی رات سے ہی بند کر دیے تھے۔ چار پانچ روز قبل وادی میں لینڈ لائن سروس کو بحال کر دیا گیا تھا مگر آج خدشات کے باعث حساس علاقوں میں ایک مرتبہ پھر سے لینڈ لائن کو منقطع کر دیا گیا ہے اور ایسا کرنے کا ایک ہی مقصد ہے تاکہ مظاہرین آپس میں کسی طرح کا رابطہ نہ کر پائیں۔ خبر رساں اداروں کے مطابق اب تک چار ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ مودی سرکارجوکہتی ہے کشمیر کی صورتحال اس سے مختلف ہے بھارت کادعوی ہے مقبوضہ کشمیر میں زندگی معمول کے مطابق ہیمگر گزشتہ دن ایک ہسپتال میں اب تک 60 زخمی لائے گئے ہیں۔ امریکی اخبار نے بھارت کا بھانڈہ پھوڑتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوج پیلٹ گنزکابے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ اخبار نے مزید کہا کہ لاک ڈائون کی وجہ سے دنیا حقیقی صورتحال سے بے خبر ہے۔دریںا ثناء مقبوضہ کشمیر میں لوگوں نے ہندو توا کی باوردی اور سادہ لباس میں ملبوس فورسز کی طرف سے کشمیری مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی تذلیل اور آبروریزی سے تحفظ کے لیے ہر گلی کوچے میں مقامی کمیٹیاں بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ کشمیر میڈیاسرو س کے مطابق کمیٹیاں بنانے کا کام بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر ہندو فرقہ پرست قوتوں کے ان توہین آمیزبیانات کے بعد شروع کیا گیا جن میں کہا گیا تھا کہ بھارتی ہندو مقبوضہ کشمیر جا کر آباد ہوں اور وہاں کشمیری خواتین کے ساتھ شادیاں کریں۔ کمیٹیوں نے اپنے پوسٹروں اور پمفلٹوں کے ذریعے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اپنے محلوںکی چھوٹی چھوٹی مساجد کو ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال اور ایک دوسرے کو درکار کسی بھی طرح کی مد د کے لیے استعمال میں لائیں ۔کمیٹیوں نے پوسٹروں اور پمفلٹوں کے ذریعے لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا کہ ’’اگر ہم پنچایت اور بلاک کی سطح پر متحد ہو جائیں تو پھرکوئی شیطان ہمارے علاقوں اور گھروں میں داخل نہیں ہوسکے گا‘‘۔ان میں مزید کہا گیا کہ ’’یہ اچھاوقت ہے کہ ہم سچے مسلمانوں کی طرح متحد ہوں، تاریخ لکھی جارہی ہے اور ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم ایک زبردست قوم ہیں‘‘۔پوسٹروں اورپمفلٹس کے ذریعے لوگوں کو پیغام دیا گیا کہ ’’ تمام لوگ چوکس رہیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا کوئی بھی رکن کشمیری پنڈتوں کے بھیس میں کشمیر میں آباد نہ ہو۔بھارتی آلہ کاروں پر ہرگز بھروسہ نہ کروکیونکہ وہ تم پر شیطان کی طرح حملہ کریں گے ۔ پوسٹروں اور پمفلٹوں کے ذریعے تمام کشمیری قوم سے شدت سے اپیل کی گئی کہ وہ اس نازک وقت میں چٹان جیسی مضبوطی کا مظاہرہ کرے۔ کمیٹیوں نے کہا کہ حریت ،جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکنوںکو اپنے عوام اور قوم کے تحفظ کیلیے صف اول کا کردار ادا کرنا چاہیے۔