ارشد ملک کا بیان ہی فرد جرم ہے،نوازشریف کی سزا ختم ہوسکتی ہے،عدالت عظمیٰ

288

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ وڈیو سے متعلق تحقیقاتی کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کردی اور فیصلہ سناتے ہوئے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ اس وڈیو کے منظرِ عام آنے کے بعد جج کی جانب سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو دی جانے والی سزا کو ختم کرے یا نواز شریف کیخلاف ٹرائل دوبارہ کرے یا انہی شواہد کا دوبارہ جائزہ لے ، عدالت اس حوالے سے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتی ۔احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک نے گزشتہ برس میاں نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز کے مقدمے میں 7سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کر دیا تھا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی طرف سے لکھے گئے اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ احتساب عدالت کے جج کی طرف سے دیے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے اس کے علاوہ عدالت عالیہ کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت کے جج نے گزشتہ ماہ جو بیان حلفی جمع کرایا تھا وہ دراصل ان کا اعترافِ جرم ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انہوںنے اپنے بیان حلفی میں مجرم نواز شریف کے بیٹے کے ساتھ ملاقات کا اعتراف کیا ہے اور اس پیش رفت کے بعد احتساب عدالت کے سابق جج نے اس سے متعلق اعلیٰ حکام کو نہ ہی آگاہ کیا اور نہ ہی وہ خود عدالتی کارروائی سے الگ ہوئے۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت کے جج کی کنڈکٹ کے بارے میں فیصلہ کرنا اسلام آباد ہائی کورٹ کا کام ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس کیس میں 5نکات سامنے آئے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلا ایشو وڈیو کے مستند ہونے یا نہ ہونے کا تھا جبکہ دوسرا اسے بطور ثبوت پیش کرنے کے بارے میں تھا۔ تیسرا ایشو وڈیو کے مستند ہونے کی صورت میں مجاز فورم کا تھا۔چیف جسٹس کے مطابق اس کے علاوہ یہ ایشوز بھی تھے کہ وڈیو کے نواز شریف کے مقدمے اور جج ارشد ملک کے مستقبل پر کیا اثرات ہوں گے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ احتساب عدالت کے سابق جج کا طرز عمل ادارے کے لیے ایک بدنما داغ کی طرح ہے اور ان کے اس اقدام سے بہت سے ایماندار ججز کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ جلد ہی احتساب عدالت کے سابق جج کے خلاف کارروائی کرے گی۔واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے احتساب عدالت نمبر دو کے سابق جج ارشد ملک کو ان کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے معطل کردیا تھا اور انہیںلاہور ہائی کورٹ میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس وڈیو کی حقیقت جاننے کے لیے کسی بھی کمیشن کی تشکیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ کوئی بھی عدالت کسی بھی کمیشن کی طرف سے دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کی پابند نہیں ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ قانونِ شہادت کے تحت اس وقت تک کسی بھی وڈیو کو عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا جب تک اس کے مستند ہونے یا وڈیو بنانے والا عدالت میں آ کر بیان نہ دے دے۔اپنے فیصلے میں سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ آڈیو ٹیپ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اس وڈیو کے اصل ہونے سے متعلق شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے اس لیے اس آڈیو کے بارے میں درخواست مسترد کرد ی گئی تھی۔فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ ایف آئی اے اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا کہ عدالت عظمیٰ اس معاملے میں مداخلت کرے کیونکہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو دی جانے والی سزا کے خلاف اپیل ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے وڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 20 اگست کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔اس سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے 22 اگست کو جج ارشد ملک کی خدمات واپس لاہور ہائی کورٹ کے حوالے کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔