افکار سید ابوالاعلی مودودی ؒ

244

انسانی فطرت
’فطرت‘ کے اصل معنی ساخت کے ہیں، یعنی وہ بناوٹ، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے ہر ایک جنس، نوع اور فرد کو عطا کی ہے، اور وہ صلاحیتیں اور قوتیں جو اس نے ہر ایک کی ساخت میں رکھ دی ہیں۔
ایک فطرت بحیثیت مجموعی ’انسان‘ کی ہے، جو پوری نوعِ انسانی میں پائی جاتی ہے۔ ایک فطرت ہرہر انسانی فرد کی جدا جدا بھی ہے، جس سے ہر ایک کی الگ ایک مستقل شخصیت و انفرادیت تشکیل پاتی ہے۔ اور اسی فطرت میں وہ قوتیں بھی شامل ہیں، جن کو استعمال کرکے اپنے آپ کو درست کرنے یا بگاڑنے، اور دوسروں کے مفید یا مضر اثرات کو قبول یا رد کرنے کی قدرت انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے نہ تو یہ کہنا درست ہے کہ انسان اپنی فطرت کو بنانے یا بدلنے پر کامل قدرت رکھتا ہے، اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ وہ بالکل مجبور ہے اور کوئی قدرت اس کو سرے سے حاصل ہی نہیں ہے۔ بات ان دونوں کے درمیان ہے۔
آپ کوشش کر کے اپنی بعض فطری کمزوریوں کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں اور یہ اصلاح کی قدرت بھی آپ کی فطرت ہی کا ایک حصہ ہے۔ [جہاں تک] اپنی کمزوریوں کا ذکر ہے، [تو] اپنے نفس کا جائزہ لے کر اچھی طرح ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اپنی قوتِ فکروفہم، قوتِ تمیز اور قوتِ ارادی سے کام لے کر بتدریج ان کو گھٹانے اور اعتدال پر لانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔
یہ کہنا کہ ’’میرے اندر یہ یہ کمزوریاں ہیں‘‘ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ انھیں محسوس کرتے ہیں۔ اب جس وقت بھی ان میں سے کسی کمزوری کا ظہور شروع ہو، اور آپ کو محسوس ہوجائے کہ اس کمزوری نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے، اسی وقت اپنی ارادی قوت کو اس کی روک تھام کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیجیے اور اپنی قوتِ فکروفہم اور قوتِ تمیز سے کام لے کر معلوم کیجیے کہ نقطۂ اعتدال کون سا ہے، جس کی طرف اپنے آپ کو موڑنے اور آگے بڑھانے کے لیے آپ اپنی ارادی طاقت استعمال کریں۔ (رسائل و مسائل، ترجمان القرآن، اگست 1959)
٭…٭…٭
غیبت کیا ہے؟
’غیبت‘ کی تعریف وہی ہے، جو خود صاحبِ شریعتؐ نے بیان فرمائی ہے۔ مسلم، ابو داؤد اور ترمذی میں ابو ہریرہؓ سے وہ ان الفاظ میں منقول ہے: غیبت یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کا ذکر ایسے طریقے سے کرے جو اس کو بْرا محسوس ہو۔ عرض کیا گیا کہ حضور کا کیا خیال ہے اگر میرے بھائی میں واقعی وہ بْرائی موجود ہو؟ فرمایا: اگر اس میں وہ بْرائی ہو جس کا تو ذکر کر رہا ہے تو تْو نے اس کی غیبت کی۔ اور اگر اس میں وہ بْرائی موجود نہیں ہے جس کا تو نے ذکر کیا ہے تو تْو نے اس پر بہتان لگایا۔ اسی مضمون کی ایک روایت امام مالک نے موطا میں مطلب بن عبداللہ سے نقل کی ہے: ایک شخص نے رسول اللہؐ سے پوچھا: غیبت کیا چیز ہے؟ فرمایا: یہ کہ تو کسی کا ذکر اس طرح کرے کہ اگر وہ سنے تو اسے بْرا معلوم ہو۔ اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! اگرچہ وہ بات حق ہو؟ فرمایا: اگر تْو باطل کہے تو یہی بہتان ہے۔ کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ اس میں ’پیٹھ‘ پیچھے کا ذکر نہیں ہے، اس لیے اس تعریف کی رْو سے منہ در منہ بْرا کہنے پر بھی غیبت کا اطلاق ہو گا۔ دراصل لفظ ’غیبت‘ میں خود پیٹھ پیچھے کا مفہوم موجود ہے۔ اس لیے جب غیبت کی تعریف کی حیثیت سے کوئی بات کہی جائے تو اس میں یہ مفہوم آپ سے آپ مقدّر ہوگا خواہ اس کی صراحت ہو یا نہ ہو۔) اس ارشاد نبویؐ کے اتباع میں اکابر اہل علم غیبت کا شرعی مفہوم یہی بتاتے ہیں کہ: ’’وہ آدمی کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر بْرائی کے ساتھ کرنا ہے‘‘۔ بدر الدین عینی شارح بخاری کہتے ہیں: ’’غیبت یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جسے اگر وہ سنے تو اسے رنج پہنچے اور بات وہ سچی ہو۔ ورنہ اگر بات جھوٹی بھی ہو تو اس کا نام بہتان ہے‘‘۔ ائمہ لغت وحدیث وفقہ میں سے کسی نے بھی یہ جسارت نہیں کی ہے کہ ایک اَمرِ شرعی کی جو تعریف صاحبِ شریعت نے خود بیان کر دی تھی اس کو ناقص ٹھہرا کر جواب میں اپنی ایک تعریف پیش کرتا۔
(رسائل و مسائل، ترجمان القرآن، جون 1959)