جنرل آگے بڑھو… ورنہ تاریخ معاف نہیں کرے گی

1080

ملک اور قوم پر جب بھی مشکل وقت آیا سیاستدان حکمرانوں نے مایوس کیا۔ عوام نے بجا طور پر جرنیلوں کی طرف دیکھا اور اُن سے توقعات وابستہ کیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لائوں کو عوامی سطح پر تائید حاصل رہی، یہ الگ بات ہے کہ آگے چل کر مارشل لا بھی ناکام ہوئے تاہم اس دوران میں بعض تاریخی کامیابیاں بھی ہوئیں۔ 65ء میں بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا گیا اور جنگ ہم جیت گئے، اس فتح کا سہرا جنرل ایوب خان کو جاتا ہے۔ 70ء کی جنگ ہم ہار گئے، مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلاادیش بن گیا اور 90 ہزار پاکستانی بھارت کے قیدی بن گئے۔ اس شکست اور شرمندگی کی تمام تر ذمے داری جنرل یحییٰ خان اور جنرل امیر عبداللہ خان نیازی پر عائد ہوتی ہے۔ دسمبر 79ء میں سوویت یونین (روس) نے افغانستان پر حملہ کردیا، ردعمل میں ’’جہاد افغانستان‘‘ شروع ہوا، جہاد کی طاقت نے نہ صرف سوویت یونین کو تحلیل کردیا بلکہ پوری دنیا سے ’’سرخ انقلاب‘‘ کا خطرہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ گیا۔ اس جہاد کی کامیابی کا تمام تر کریڈٹ جنرل ضیا الحق اور ان کے رفقا کو جاتا ہے جب کہ ’’کارگل‘‘ پر جب جنگ ہوئی تو یہ جنگ ہم امریکا جا کر ہار گئے۔ تمام تر الزام نواز شریف اور آرمی چیف جنرل مشرف پر ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور مقبوضہ وادی کے عوام کو جس طرح کی صورت حال اور صدمے کا سامنا ہے اس میں ایک بار پھر پاکستان کے حکمران سیاستدان اور حاضر سروس جنرل ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں کہ اگر انہوں نے درست سمت میں بروقت قدم نہ اٹھایا تو سب کچھ غلط ہوجائے گا جسے قوم کبھی فراموش اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
جہاں تک اقوام متحدہ کی قرار دادوں (1948-1949) پر عمل درآمد کرانے کی بات ہے تو یہ مذاکرات کے ذریعے ممکن نہیں اگر ایسا ہوتا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطح پر 100 سے زائد مرتبہ کے مذاکرات اور 72 سال کا عرصہ بے نتیجہ نہ رہتے۔ کسی نہ کسی مرحلے پر مسئلہ کشمیر کو ضرور حل ہوجانا چاہیے تھا مگر بھارتی حکمرانوں کی بدنیتی پر مبنی پالیسی اور جارحانہ عزائم کی وجہ سے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ جوں کا توں رہا۔ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل انتونیو گویٹرس مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کے لیے اسی طرح سے جھوٹ بول رہے ہیں جس طرح سے صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران کے دورہ امریکا کے دوران ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر ثالثی کی جھوٹی پیشکش کی تھی، جب کہ سلامتی کونسل کی حالیہ قرار داد سفارتی سطح پر پاکستانی موقف کی کامیابی ضرور ہے تاہم عملی طور پر یہ ایک دھوکا ہے، ورنہ سلامتی کونسل کو چاہیے تھا کہ وہ 48ء اور 49ء کی تسلیم شدہ قرار دادوں پر عمل درآمد کے لیے بھارت کو کوئی واضح پیغام اور ٹائم فریم دیتی، مگر ایسا کچھ بھی نہیں کہا گیا محض پرانے موقف کو دہرایا گیا اور نئی صورت حال میں بھارت کو فری ہینڈ چھوڑ دیا گیا۔ حالاںکہ سلامتی کونسل بھارت پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کرسکتی تھی۔ ’’او آئی سی‘‘ کہنے کو تو مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے مگر درحقیقت اس کا موجودہ کردار عالمی سامراجی قوتوں کے آلہ کار کا سا ہے۔ اس تنظیم کے بزدلانہ فیصلوں اور منافقانہ پالیسیوں ہی کی وجہ سے اسرائیل فلسطینیوں پر اور بھارت کشمیریوں پر حملہ آور ہے۔ بابری مسجد کا ملبہ اور مسجد اقصیٰ کے بند دروازے ’’او آئی سی‘‘ کی آنکھیں کھولنے اور اُسے شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہیں مگر پھر بھی اس کا ضمیر اور احساس جاگ نہیں رہا۔ تاشقند معاہدہ، شملہ سمجھوتا اور معاہدہ واشنگٹن پاکستان کے سیاستدان، حکمرانوں اور جرنیلوں کو ٹریپ کرنے کی ایک سازش تھی کہ کس طرح مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستانی فوج کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکا جاسکے۔ جب کہ ’’اعلان لاہور‘‘ مسئلہ کشمیر پر سفارتی پسپائی تھی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کا صرف ایک ہی حل ہے کہ میدان جنگ میں اُترا جائے۔ جب تک فوجیں پیش قدمی نہیں کریں گی تب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کے ایک انچ سے بھی دستبردار نہیں ہوگا۔ جنگ اور جہاد کے بغیر کوئی دوسرا آپشن نہیں کہ جس کے ذریعے بھارت کی جارحیت، بدمعاشی اور ظلم کو روکا جائے۔ کشمیر کی بیٹیوں کے سروں پر سے دوپٹے اُتارے جارہے ہوں، کشمیر کے بیٹے سنگینوں اور گولیوں سے چھلنی ہورہے ہوں، کشمیری مائوں کی آہ و بکا سے پرندے بھی گھونسلے چھوڑ چکے ہوں تو ایسے میں ہمارے سینوں پر چمکتے ہوئے تمغے مناسب نہیں لگتے۔ وقت آگیا ہے کہ یہ تمغے خون میں لت پت ہوجائیں، فوجیں اسی دن کے لیے کھڑی کی جاتی ہیں کہ جب آزادی، عزت اور عقیدے کو خطرہ ہوگا تو فوجیں آگے بڑھیں گی۔ آگ اور خون کے دریا سے گزر کر ملک کا دفاع کریں گی۔ ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ محض ایک وادی کا نام نہیں بلکہ پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ ہے جس پر دشمن نے ترشول رکھ دیا ہے۔ لہٰذا اس صورت حال میں پاکستان کی مسلح افواج کو آگے بڑھنے کا حکم ملنا چاہیے اگر آج فوجیں آگے نہ بڑھیں تو پھر وہ کون سا دن اور وقت ہوگا جب توپیں چلیں گی؟۔
وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی عالمی برادری سے اپیلیں اور عالمی اداروں میں پیش کی جانے والی قرار دادیں درحقیقت میدان جنگ سے فرار اور مسئلہ کشمیر کو سردخانے کی طرف لے جانے کے مترادف ہے جس کا آخری اور لازمی نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ ایک دن امریکا، روس، اسرائیل اور بھارت مل کر ’’آزاد کشمیر‘‘ کو بھی پاکستان سے علیحدہ کرنے پر متفق ہوجائیں گے جب کہ سلامتی کونسل اپنی روایتی بدنیتی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف جارح قوتوں کا ساتھ دے گی جیسا کہ وہ عراق اور افغانستان میں کرچکی ہے۔ یاد رہے کہ ’’تحریک انصاف حکومت‘‘ کے بھارت کے خلاف تمام اقدامات نمائشی، عارضی اور مصنوعی نوعیت کے ہیں جن کے باطن میں یہ بات چھپی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ تمام اختلافات اور معاملات کول ٹھنڈے ہوجائیں گے اور ہم واپس بھارت کے دوست بن جائیں گے جو وزیراعظم پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ کو کاٹ دینے والے بھارت کے ساتھ محض سفارتی تعلقات توڑنے کے لیے تیار نہیں وہ بھارت کو کیا سبق سکھائے گا۔ یہ سبق تو ہماری بہادر افواج کو سکھانا ہوگا وہ آگے بڑھیں اور کالی ماتا کے پجاریوں کو بتادیں کہ گجرات سے بابری مسجد اور ڈھاکا سے سری نگر تک مسلمانوں کا خون بہا کر تم نے برلا مندر کو جو غسل دیا ہے اُس نے سومناتھ کے مندر کی یاد تازہ کردی ہے لہٰذا وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر تمہاری ’’محمود غزنویؒ‘‘ سے ملاقات کرائی جائے اور جنرل ایوب خان کے وہ الفاظ دہرائے جائیں کہ ’’میرے عزیز ہم وطنوں آگے بڑھو اور بزدل دشمن کو بتادو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے یہ وہ قوم ہے جو کلمہ لاالہ اللہ محمدرسول اللہ‘‘ پڑھنے والی ہے۔