روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

375

جماعت اسلامی کی انتخابی سرگرمیاں
جماعت اسلامی اپنے نصب العین یعنی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے صاف ستھرے کردار کی قیادت کو اقتدار میں لانے کے لیے برسوں سے کوشاں تھی۔ لیکن وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت‘ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی‘ ۱۹۵۴ء میں دستور ساز اسمبلی کو غیر آئینی طور پر توڑنے‘ عدالت عالیہ کی جانب سے اس کی بحالی کے حکم کے باوجود‘ فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر اور اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے گٹھ جوڑنے ملکی سیاست کو طالع آزماؤں کے ٹولے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ جس نے آئندہ فوجی آمروں کو اقتدار کی راہ دکھائی اور ملک سیاسی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوکر رہ گیا اور ملکی معیشت اور قومی تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
ملک کے ان حالات میں جماعت اسلامی خاموش تماشائی نہیں تھی۔ ملک کے دونوں بازوؤں میں اس کے رہنما اور کارکن دن رات اپنی جدوجہد میں مصروف تھے۔ ستمبر ۱۹۵۸ء کے آخر میں‘ جماعت اسلامی نے ڈھاکا کے پلٹن میدان میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا اور ڈھاکا شہر کے دیگر علاقوں میں بھی جلسوں کا انعقاد کیا۔ ان جلسوں سے جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل میاں طفیل محمد‘ امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان مولانا عبدالرحیم‘ پروفیسر غلام اعظم اور دیگر رہنماؤں نے تقاریر کیں۔ انہوں نے ڈپٹی اسپیکر مسٹر شاہد علی کی ہلاکت پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا اور عوام کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا قیمتی ووٹ صرف اور صرف قابل اور دیانت دار افراد کو دیں‘ جو اسلام کو ہر شعبہ زندگی میں نافذ کرکے حق و انصاف کا بول بالا کرسکیں۔
اکتوبر کے شروع میں ڈھاکا میں جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی مجلس شوریٰ اور امرائے اضلاع کا اجلاس تین دن تک جاری رہا۔ جس میں صوبائی اسمبلی میں برپا شدہ شدید غنڈہ گردی اور تشدد کی بھرپور مذمت کی گئی اور الیکشن سے پہلے صوبائی حکومتوں کے استعفے کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ صوبائی شوریٰ نے اپنی قرارداد میں کہا کہ موجودہ حکومت ملت اور مملکت کے وقار اور مفاد کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے اور اقتدار پر قابض رہنے کا حق کھوچکی ہے۔
آئین کی منسوخی اور فوجی انقلاب
۷، ۸ ؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کی درمیانی رات کو لاہور کے بیرون موچی دروازہ‘ ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے اپنی خدا داد بصیرت سے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ: ’’ملکی حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ صبح اٹھیں تو معلوم ہو کہ آئین کی بساط لپیٹی جاچکی ہے اور اقتدار پر کوئی فرد واحد مسلط ہے‘‘۔
یہی وہ رات تھی جب اسکندر مرزا نے بری فوج کے سربراہ جنرل ایوب خاں کے گٹھ جوڑ سے پورے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کردیا‘ تمام سیاسی جماعتیں خلاف قانون قراردے دی گئیں‘ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ دی گئیں اور بڑی تگ ودو کے بعد ۱۹۵۶ء میں بننے والے متفقہ دستور کو توڑدیا گیا۔ جنرل محمد ایوب خاں کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور پاکستان کی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر مقرر کردیا گیا۔
(جاری ہے)