’’غزوہ ہند‘‘ اور کشمیر کی آزادی

1335

بھارت ریاست جموں و کشمیر پر اسی وقت قابض ہوگیا تھا جب برصغیر کی تقسیم کے بعد اس کی فوجیں اس میں داخل ہوئیں اور قبائلی مجاہدین کو ایک سازش کے تحت پسپا ہونے کا حکم دے دیا گیا، حالاں کہ وہ سری نگر کے قریب پہنچ گئے تھے اور بھارتی فوج ان کی یلغار کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ مجاہدین سری نگر ائرپورٹ پر قبضہ کرکے اس کی سپلائی لائن کاٹ سکتے تھے لیکن ایک طرف انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا گیا اور دوسری طرف پاک فوج کے انگریز کمانڈر انچیف نے قائد اعظمؒ کے حکم کے باوجود فوج کو کشمیر میں پیش قدمی کی اجازت نہ دی۔ اس طرح جو تنازع ابتدا میں طے ہوسکتا تھا وہ 72 سال گزرنے کے باوجود طے نہیں ہوسکا اور ہم مسلسل لکیر پیٹ رہے ہیں۔ بھارت کشمیر کا مسئلہ خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا تا کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر بحث میں اُلجھا کر اسے کشمیر میں ہر قسم کی فوجی مہم جوئی سے باز رکھے اور وہ خود مقبوضہ علاقے میں اپنی فوجی پوزیشن مستحکم بناتا رہے۔ بھارت نے پاکستان سے مسئلہ کشمیر پر کم و بیش ڈیڑھ سو بار مذاکرات کیے لیکن ان مذاکرات کا مقصد وقت ٹالنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب بھارت مذاکرات کے لیے پاکستان کی منتیں کرتا تھا اور پاکستان بمشکل تمام اس پر آمادہ ہوتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب پاکستان مذاکرات کے لیے بھارت کی منتیں کرنے لگا اور بھارت نے اسے ٹکا سا جواب دے دیا اور اب وہ وقت آیا ہے کہ بھارت نے تمام عالمی معاہدوں اور قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یکطرفہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کو اپنے اندر ضم کرلیا ہے اور کشمیریوں کے احتجاج کو دبانے کے لیے اس کی فوج نے پورے علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے، غیر معینہ عرصے کے لیے کرفیو نافذ ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اس جدید ترین دور میں جب کہ پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے، مقبوضہ کشمیر کو پوری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ کشمیریوں کو کچھ خبر نہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے اور عالمی برادری بھارت کے ظالمانہ اقدامات کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔
اس کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے میں کمی نہیں آئی ہے وہ کرفیو کی پابندیاں توڑتے ہوئے باہر نکلے ہیں اور بھارتی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آزادی کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ پاکستان نے ان کی آواز میں آواز ملا کر اعلان کیا ہے کہ وہ ہر حال میں ان کا ساتھ دے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت میں جا کر دلوں کو گرمانے والا خطاب کیا ہے، فوج کے سربراہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ پاک فوج تیاری کی حالت میں ہے اور وہ کشمیر کی آزادی کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر یہ کامیابی ملی ہے کہ اس کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس نے ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو مسترد کردیا ہے اور کشمیر کے بارے میں اپنی اُن قراردادوں کی توثیق کی ہے جن کے مطابق کشمیریوں کو ان کے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کے بارے میں بہت شکوک و شبہات تھے، خود ہمارے وزیر خارجہ مایوسی پھیلانے والوں میں شامل تھے۔ لیکن اس کا نتیجہ خلاف توقع مثبت رہا ہے اور کچھ نہیں تو مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر فوکس پوائنٹ بن گیا ہے۔ اگرچہ اس سے مقبوضہ کشمیر کے سنگین حقائق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ بھارت اپنی بزدلانہ کارروائیوں سے باز آئے گا کیوں کہ سلامتی کونسل نے محض وعظ و نصیحت پر اکتفا کیا ہے۔ بھارت کے خلاف کسی کارروائی کا عندیہ نہیں دیا۔ حالاں کہ اس کے پاس ایسا کرنے کا اختیار تھا۔ بہرکیف سلامتی کونسل کے اجلاس کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھارت کی رسوائی میں اضافہ ہوگا اور اس نے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے مقبوضہ علاقے میں وحشیانہ قتل عام کا جو منصوبہ بنا رکھا ہے وہ اس پر بے باکی سے عمل نہیں کرسکے گا۔ البتہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل پھر بھی کوسوں دور ہے۔
قرائن بتارہے ہیں کہ یہ خطہ ایک بڑے معرکے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شاید یہ وہی معرکہ ہے جس کی پیش گوئی نبی آخرالزماں سیدنا محمدؐ نے کی ہے اور اسے ’’غزوہ ہند‘‘ قرار دیا ہے۔ امریکا افغانستان سے رخصت ہورہا ہے اگر طالبان سے اس کا تصفیہ نہ ہوسکا تو وہ کسی تصفیے کے بغیر روس کی طرح افغانستان چھوڑ دے گا۔ اس نے کابل کی کٹھ پتلی حکومت کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور صدارتی انتخاب ملتوی کردیا گیا ہے۔ امریکا کے افغانستان سے رخصت ہوتے ہی طالبان کابل پر قبضہ کرلیں گے۔ افغانستان پر ان کی حکومت ہوگی لیکن اب کی دفعہ انہوں نے مزاحمت اور محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طالبان قیادت افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے کے بعد خطے کے سب سے اہم مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور وہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔ طالبان قیادت کو بخوبی اندازہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس کے کلمہ گو بھائی کس اذیت کا شکار ہیں، اس لیے افغان مجاہدین ان کی مدد کو پہنچیں گے اور مقبوضہ کشمیر جہاں پہلے سے جہاد جاری ہے، جہاد کا مرکز
بن جائے گا اور خطے میں موجود جہادی تنظیمیں ازسرنو فعال ہوجائیں گی اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں پھر ان کے حصار میں آجائے گا۔ جیسا کہ وہ 1991ء کی دہائی میں مجاہدین کے نرغے میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف برسرعمل عالمی استعماری قوتیں اس امکانی صورت حال سے گھبرائی ہوئی ہیں ان کا سارا فوکس پاکستان پر ہے کہ یہاں سے جہادی عناصر مقبوضہ کشمیر کا رُخ نہ کرنے پائیں۔ ایف اے ٹی ایف نے بھی پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے اور پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ کشمیر کا بحران شروع ہوتے ہی آئی ایم ایف بھی دھمکیوں پر اُتر آیا ہے اور پاکستان سے کہا جارہا ہے کہ وہ جہادی تنظیموں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کرے۔ بصورت دیگر اس کو دیا گیا قرضہ منسوخ کردیا جائے گا اور عالمی اداروں کو دی گئی ضمانتیں منسوخ کردی جائیں گی۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس میں بھی امریکا نے جہادی عناصر کے خلاف ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کیا ہے لیکن ہمارا ایقان ہے کہ جب ’’غزوہ ہند‘‘ برپا ہوگا تو کفار کی یہ پیش بندیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور مجاہدین اپنی فوج کے ساتھ مل کر دشمن پر ہر طرف سے یلغار کریں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بھارت کے مہم جو عناصر اس معرکے کا موقع فراہم کریں گے لیکن نتیجہ ان کے حق میں بہت بُرا ہوگا۔ بالکل ایسے ہی جیسے روس اور امریکا کو افغانستان میں خاک چاٹنا پڑی ہے۔ دنیا کا نظام انسانوں کے بس میں نہیں اس بالادست قوت کی قدرت میں ہے جس کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا۔
غزوہ ہند کے نتیجے میں ان شاء اللہ کشمیر آزاد ہوگا اور سید علی گیلانی اسے اپنی زندگی میں آزاد ہوتا ہوا دیکھیں گے، انہیں آج بھی کشمیر کی آزادی کا اتنا ہی یقین ہے جتنا سورج کے نکلنے کا۔