نظریہ ٔ آواگون اور ہٹلر کا نیا جنم

660

ہندو مذہب کا ایک اہم نظریہ آواگون ہے جس کے مطابق کوئی بھی شخص ایک بار مرتا تو اس دنیا میں کسی نئی صورت اور نئے نام کے ساتھ اس کا نیا جنم ہوتا ہے۔ یہ انسانی شکل میں بھی ہو سکتا ہے اور کسی جانور چرند پرند کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے یہ فرد کے کردا ر وعمل پر منحصر ہے۔ اس ہندو فلاسفی کی بنیاد پر نریندر مودی ہٹلر کا نیا جنم نیا روپ کہنا چنداں غلط نہ ہوگا۔ اپنی مخصوص اور غیر متوازن سوچ اور مذہبی اور نسلی برتری کے تکبر میں مبتلا یہ قیادت اس عالم ِ جنون میں کوئی بھی غلط فیصلہ کرکے جنوبی ایشیا کو تباہی کا شکار کر سکتی ہے۔ ہٹلر کا نام مغربی دنیا، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بات کرنے والوں کے بدن میں آج بھی خوف کی جھرجھری پیدا کرتا ہے۔ مغرب بالخصوص یورپ میں آج بھی بہت سی عمارتوں کے کھنڈرات دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں کی یادگار ہیں اور مغرب نے ان یادوں کو لوح حافظہ پر تازہ رکھنے کے لیے آج بھی برقرار رکھا ہے۔
ہٹلر کا نام آتے ہی دنیا کے سب سے باوسیلہ طبقے یہودیوں کو ہولو کاسٹ کی یاد بھی آتی ہے جس میں ان کے مطابق لاکھوں یہودی تہ تیغ کیے گئے۔ ہٹلر کے شوق اور روگ نے دنیا کو ایٹمی جنگ کا تحفہ دیا جس کے نتیجے میں ہیرو شیما اور ناگاساکی جیسے دو شہروں اور ان کے باسیوں کا وجود کرہ ارض سے مٹ کر گیا۔ ہٹلر اور مسولینی کے اسلوب وانداز نے دنیا میں ہر طبقے اور مذہب کے لوگوں کو متاثر کیا اور ان میں سخت گیر قسم کی تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں بھی اسی سوچ کی عکاس تھیں۔ یہ تنظیمیں عرصہ دراز تک عوامی سطح پر سرگرم رہیں مگر جب ان کی عوامی مقبولیت بڑھ گئی تو انہوں نے اپنے اوپر ایک سیاسی چھتری تان کر بھارتیا جنتا پارٹی کا روپ دھار لیا۔ اس طرح ان لوگوں نے اپنی سوچ کو بھارت پر باقاعدہ مسلط کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ یہ سوچ چونکہ اول وآخر ہندوتوا اور ہندو مت کے تصورات اور ان کے دوبارہ عروج کے گرد گھومتی تھی اس لیے اسے بھارت کے ہندئووں میں پزیرائی حاصل ہوئی اور اس سوچ میں اقلیتوں کے لیے پرامن بقائے باہمی کا کوئی پیغام اور راستہ موجود نہیں تھا۔ اس سوچ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز بابری مسجد کی شہادت جیسے نفرت انگیز اقدام سے کیا۔ بابری مسجد کی شہادت بھارت میں مسلمانوںکو دیوار سے لگانے اور سیاسی اعتبار سے مفلوج اور غیر موثر بنانے کا آغاز تھا۔ اس کے بعد بھارتیا جنتا پارٹی نے اپنی نسل پرستانہ سوچ کو قدم بقدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اپنی صفوں میں اعتدال اور توازن کی ہر آواز کو واجپائی، جسونت سنگھ کی صورت میں پیچھے دھکیل دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سخت گیری کی علامت ایل کے ایڈوانی بھی قابل قبول نہیں رہے کہ انہوں نے قائد اعظم کے بارے میں چند مثبت جملے اپنی کتاب میں درج کیے تھے۔ کچھ ایسا ہی جرم جسونت سنگھ سے بھی سرزد ہوا تھا۔ بھارتیا جنتا پارٹی کی متعصبانہ سوچ نے ان دونوں سے توبہ بھی کرائی اور پھر سزا کے طور پر انہیں سیاسی منظر سے غائب بھی کر دیا اور اس پردے کے پیچھے سے نریندرمودی جیسا انسان برآمد ہوا۔
نریندر مودی کی سی وی کا سب اہم اور پسندیدہ نکتہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام تھا۔ یہ نکتہ جو آزاد دنیا میں ان کے لیے ڈس مودی کا ڈس کریڈٹ ہونا چاہیے تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کریڈٹ بنتا چلا گیا کیونکہ ہٹلر کے برعکس مودی کا شکار ہونے والے یہودی نہیں مسلمان تھے وگرنہ مودی کی سرپرستی میں سجایا جانے والا مقتل بھی اپنی دردناکی اور سنگینی کے اعتبار سے کسی ہولو کاسٹ سے کم نہ تھا۔ اس قتل عام کے بعد تو مودی وزیر اعلیٰ سے ترقی پاکر وزیر اعظم بن گئے اور یہ جمہوریت اور سیکولر رویوں کے زوال پزیر ہونے کی نشانی تھی اور اب تو کشمیر کی مسلم شناخت پر حملہ اس سفر کا اختتام ہے۔ گویا کہ اب نریندر مودی کو ردعمل کا انتظارکرنا چاہیے۔ اس فیصلے کے اثرات کب، کہاں اور کس انداز سے مرتب ہوتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ گجرات کی حیثیت سے نریندر مودی نے بدترین قتل عام کی سرپرستی کر کے جنونی ہندئووں کے دل جیت لیے تھے۔ گجرات جو کسی مہذب اور اعتدال پر مبنی معاشرے میں کسی حکمران کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہو نا چاہیے تھا نریندر مودی کے لیے فتح کا تمغا بن گیا اور مودی کے اس گھنائونے کردار نے اسے طاقت کے مراکز سے اور قریب کر دیا۔ ماضی کے اس تجربے کی بنیاد پر وزیر اعظم بنا کر پورے بھارت بالخصوص بیس بائیس کروڑ مسلمانوں کا مقدر اس کے حوالے کر دیا گیا۔ اب وہ مسلمانوں کے مقدر کے ساتھ فٹ بال کھیل رہا ہے۔ بدترین جنونیت اور نسل پرستی اور مذہبی تعصب کا شکار شخص ایٹمی اثاثوں کا نگران اور محافظ بھی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں القاعدہ کے عروج کے وقت مغربی ملکوں نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے اسامہ بن لادن کے ہاتھ لگنے کا واویلا کیا۔ اس کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کو غیر محفوظ ثابت کرنا تھا۔ اسامہ ایک فرد اور دم توڑتی ہوئی تنظیم کا غیر موثر سربراہ تھا جبکہ ایٹمی ہتھیاروں کا اصل استعمال افراد کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود دنیا نے اس پروپیگنڈے کو بڑی حد تک قبول کیا۔ اب جبکہ بھارت میں ایک نیا ہٹلر ظہور پزیر ہوچکا ہے اور اس ہٹلر کا ہاتھ ایٹمی بٹن پر بھی ہے تو دنیا کو اس خطرے کا اداراک کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے اگر کوئی خوش فہمی تھی بھی تو بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے اس بیان نے دور کردی ہے کہ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی بھی کر سکتا ہے۔