روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

301

کل جماعتی انتخابی کانفرنس
۱۹ ؍جولائی ۱۹۵۸ء کو وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے ایک کل جماعتی انتخابی کانفرنس منعقد کی‘ جس کا مقصد انتخابات کی تاریخ مقرر کرنا اور ملک کے دونوں حصوں میں بیک وقت یا الگ الگ اوقات میں انتخابات منعقد کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔ اس کانفرنس میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی شریک تھے۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے آخری حد‘ ۱۵ ؍فروری ۱۹۵۹ء مقرر کی گئی۔
جماعت اسلامی اور نظام اسلام پارٹی نے‘ جس کے لیڈر چودھری محمد علی تھے‘ مشترکہ طور پر تجویز پیش کی کہ: انتخابات سے تین ماہ قبل صوبائی حکومتیں توڑ دی جائیں اور مرکز میں ایک کل جماعتی وزارتی حکومت قائم کی جائے۔ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے یہ بنیادی شرط تھی او رخود انتخابی اصلاحات کے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بھی اس کی حمایت کی تھی۔ لیکن ری پبلکن پارٹی‘ عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی۔ ری پبلکن پارٹی کی تو نہ کوئی تاریخ تھی اور نہ کوئی سیاسی اخلاقی کردار‘ وہ تو راتوں رات ڈاکٹر خان صاحب‘ مشتاق احمد گورمانی اور ایوان صدر کے گٹھ جوڑ‘ ہارس ٹریڈنگ اور اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے اور ہر قیمت پر اقتدار کے حصول کے مقصد کے لیے وجود میں آئی تھی۔ لیکن اس میں افسوس کا مقام یہ تھا کہ جمہوریت کے نعرے بلند کرنے والی عوامی لیگ اور ترقی پسندانہ نعروں اور عوامی حقوق کے علم بردار نیشنل عوامی پارٹی نے چند ماہ پہلے اپنے ۲۱ نکاتی پروگرام میں یہ وعدہ کیا تھا کہ انتخابات سے چھ ماہ قبل صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو توڑ دیا جائے گا۔ اس قلابازی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا سیاسی کلچر کیسا تھا۔ مسلم لیگ نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ یہ کانفرنس کسی فیصلے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہوگئی۔
اگست ۱۹۵۸ء میں جماعت اسلامی اور پاکستان نظام اسلام پارٹی میں اتحاد ہوا‘ جس نے حکومت کو چونکا دیا۔ عوام نے اس اتحاد کو خوش آمدید کہا‘ کیوںکہ وہ بار بار کے جوڑ توڑ سے تنگ آگئے تھے۔ امیر جماعت اسلامی نے ملک بھر کے انتخابی دورے کیے اور لوگوں کو متنبہ کیا کہ: ’’وہ جاگیں‘ اس ملک کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ تماشائی بن کر نہ بیٹھیں بلکہ ہر قسم کے خوف‘ لالچ اور تعصبات سے بالاتر ہوکر صرف دین کی سربلندی کے لیے صحیح نمائندے منتخب کریں۔ کیوںکہ اسلام صرف مساجد تک محدود نہیں ہے‘ اسے تھانوں‘ بازاروں‘ عدالتوں اور پارلیمنٹ کا دین بھی ہونا چاہیے‘‘۔
اقتدار کی سازشیں اور ایک المناک سانحہ
وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جوڑ توڑ کے ذریعے ۲۴؍اگست ۱۹۵۸ء کو مشرقی پاکستان میں بنگلا قوم پرستی کی علم بردار عوامی لیگ کے عطاء الرحمن کی حکومت بنوادی۔ عطاء الرحمن نے اقتدار میں آتے ہی اپنے مدِ مقابل مسٹر ابو حسین سرکار کو سات ارکان اسمبلی سمیت گرفتار کرلیا۔ ۲۳؍ستمبر ۱۹۵۸ء کو حزب اختلاف نے مشرقی پاکستان اسمبلی کے اسپیکر عبدالحکیم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی۔ قواعد کی رو سے ڈپٹی اسپیکر مسٹر شاہد علی نے بحیثیت اسپیکر اسمبلی کے اجلاس کی صدارت شروع کی۔ پورے ایوان میں بدترین ہلڑ بازی شروع ہوگئی اور ارکان کے درمیان باقاعدہ مارپیٹ شروع ہوگئی۔ ڈپٹی اسپیکر مسٹر شاہد علی کو مار مار کر لہولہان کردیا گیا‘ جو زخموں کی تاب نہ لاکر ۲۵؍ ستمبر ۱۹۵۸ء کو انتقال کرگئے۔ مہذّب دنیا کے کسی ملک کے کسی اعلیٰ قانون ساز ادارے میں ایسے بھیانک اور شرمناک واقعے کی مثال نہیں ملتی۔ پورے ملک کا سر شرم اور ندامت سے جھک گیا اور جگ ہنسائی الگ ہوئی۔ ایوان میں اس قسم کی تشدد کی واردات سے ملک کے سیاسی حالات مزید خراب ہوگئے۔
جماعت اسلامی کے مشرقی پاکستان کے امیر مولانا عبدالرحیم نے اس واقعے کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اسے سیاسی تاریخ میں ایک شرمناک واقعہ قرار دیا‘ اور کہا کہ: ’’یہ ضروری ہے کہ موجودہ صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کو توڑ دیا جائے اور مرکز میں کل جماعتی عبوری حکومت قائم کردی جائے۔ کیوںکہ ایسی حکومتوں کی موجودگی میں انتخابات محض ڈھونگ بن کر رہ جائیں گے‘‘۔
وزیراعظم ملک فیروز خان نون اور حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں‘ ۲؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو عوامی لیگ کے تین وزراء مرکزی حکومت میں لے لیے گئے۔ ۷؍اکتوبر کو عوامی لیگ نے پھر پلٹا کھایا اور قومی اسمبلی میں پارٹی کے سیکرٹری شیخ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی کے تمام وزراء نے استعفے پیش کردیے ہیں اور عوامی لیگ انتخابات تک مخلوط حکومت کی حمایت کرے گی۔
(جاری ہے)