امریکا نے میڈیم رینج کروز میزائل کا تجربہ کرڈالا

165
کیلیفورنیا: میڈیم رینج امریکی میزائل جزیرہ سان نکولاس سے فضا میں بلند ہورہا ہے
کیلیفورنیا: میڈیم رینج امریکی میزائل جزیرہ سان نکولاس سے فضا میں بلند ہورہا ہے

واشنگٹن/ ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا نے روس کے ساتھ سرد جنگ کے دوران طے پائے آئی این ایف معاہدے سے نکلنے کے بعد میڈیم رینج کے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کر لیا۔ خبررساں اداروں کے مطابق پینٹاگون نے پیر کے روز کروز میزائل کے تجربے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا نے روایتی ساخت کے کروز میزائل کا تجربہ کیا جس نے 500 کلو میٹر تک پرواز کر کے اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ یہ تجربہ ریاست کیلیفورنیا کے جزیرے سان نکولاس میں کیا گیا۔ یاد رہے کہ روس کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر امریکا رواں ماہ انٹرمیڈیٹ نیو کلیئر فورسز نامی اس معاہدے سے دستبردار ہوگیا تھا، جس کے تحت امریکا کے میزائل تجربے پر پابندی عائد تھی۔ دوسری جانب امریکا کے اس میزائل تجربے پر چین اور روس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی میزائل تجربے سے عالمی سطح پر ہتھیاروں کے حصول کی ایک نئی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔ ماسکو اور بیجنگ نے واشنگٹن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے میزائل تجربے سے عالمی سطح پر نئی تشویش بھی جنم لے سکتی ہے۔ منگل کے روز روس نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا تجربہ کرکے فوجی کشیدگی کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ روسی نائب وزیر دفاع سرگی ریابکوف نے خبررساں ایجنسی ٹاس کو بتایا کہ امریکی میزائل تجربے کا معاملہ کافی افسوس ناک ہے۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا فوجی کشیدگی کو ہوا دینے کی راہ پر چل رہا ہے۔ ہم اس طرح کی اشتعال انگیزی سے برانگیختہ نہیں ہوں گے۔ جب کہ چین نے بھی امریکا کے میزائل تجربے پر شدید تنقید کی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے اسلحہ کے حصول کی ایک نئی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ 1987ء میں سابق سوویت یونین اور امریکا کے درمیان طے پائے معاہدے میں دونوں ممالک نے درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے تجربات نہ کرنے یا کرنے سے قبل ایک دوسرے کو اعتماد میں لینے کا عہد کیا۔امریکا نے جس کروز میزائل کا تجربہ کیا وہ جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے ٹام ہاک کروز میزائل کا نیا ورژن ہے۔ آئی این ایف معاہدے کے بعد امریکا نے 1980ء کی دہائی میں اس کا استعمال ترک کر دیا تھا۔