تکنیکی خرابیوں اور حادثات کا شکار درآمدی اور مقامی گاڑیوں سے صارفین کو خطرہ

198

کراچی(اسٹاف رپورٹر)تکنیکی خرابیوں اور حادثات کا شکار درآمدی اور مقامی گاڑیوں سے عوام کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، ملک میں سیفٹی شرائط کو یقینی بنانے کے لیے کوئی ادارہ یا میکینزم موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں فی الوقت وہیکل آرڈیننس 1965ء کے تحت کمرشل گاڑیوں کا مخصوص دورانیے کے بعد معائنہ کیا جاتا ہے جو وقت کے ساتھ فرسودہ ہوچکا ہے اور اس میں موجودہ گاڑیوں کے معائنے اور ان میں سیفٹی کو یقینی بنانے کی کمی ہے۔آٹو سیفٹی ماہرنے کہا کہ آرڈیننس میں جدید سیفٹی خصوصیات شامل نہیں ہیں جن پر عالمی سطح پر عمل کیا جاتا ہے۔ دو قسم کی سیفٹی خصوصیات کا معائنہ ضروری ہے جن میں ایکٹو سیفٹی فیچر اور پیسِیو خصوصیات ہیں، ایکٹیو سیفٹی خصوصیات میں گاڑی کی سیٹ بیلٹ، چائلڈ سیٹ ، آئی ایس او فکس اینکرز کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے افراد کی سلامتی کے لیے ہیں۔ اسی طرح ایس آر ایس بیگس جو سیٹ بیلٹ کے ساتھ حفاظت کرتے ہیں پیسیو فیچرز ہیں۔ درآمد ہونے والی زیادہ تر گاڑیوں میں حفاظتی شرائط پوری نہیں ہوتی ہیں اور حادثات کے بعد ان گاڑیوں میں ایئر بیگس بھی نہیں ہوتے۔ ان تکنیکی خرابیوں کی دیکھ بھال کے لیے کسی اتھارٹی کی عدم موجودگی سے ایسی گاڑیاں آسانی سے ملک میں درآمد کی جارہی ہیں۔ درآمدی گاڑیوں میں سے ایئر بیگس نکال کر الگ سے بھی فروخت کیا جاتا ہے اور اب یہ ایک معمول کا عمل ہے جس کی روک تھام کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے لیکن ایسی گاڑیوں سے خطرات کا شکار صارفین ہیں اور وہ اپنے تحفظ کے لیے ایئر بیگس کو خرید کر درآمد کی جانے والی گاڑیوں میں لگواتے ہیں۔ مکمل اصل پرزہ جات کے ساتھ ایئر بیگ سسٹم کو گاڑی میں لگوانے کے لیے 3 لاکھ روپے لاگت آتی ہے۔ مزید برآں، ایک بار ایئر بیگس استعمال ہونے کے بعد دوبارہ قابل استعمال نہیں رہتے اس لیے انہیں تبدیل کرانا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے ا قدامات کے حوالے سے بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں معیار کا بہترین انتظام ہے۔